عالمی مالیاتی ادارے کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹینا جارجیوا نے نیویارک میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد کہا کہا ہے کہ یہ ملاقات مفید رہی ہے۔ نیا پروگرام پاکستان میں مہنگائی میں کمی لانے کا باعث بنے گا۔
وزیراعظم سے کرسٹینا کی ملاقات واقعی مفید رہی ہوگی لیکن جس طرح سے انہوں نے نئے پروگرام کے بعد مہنگائی میں کمی کی نوید سنائی ہے۔ اس پر بے ساختہ زبان سے یہی نکلتا ہے: کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔نیا پروگرام تو دے دیا مگر کڑی شرائط کے ساتھ دیا ہے جس سے مہنگائی کے طوفان کے جھکڑ مزید تیز ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایک شرط یہ ہے کہ پاکستان نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ فارمولے پر نظرثانی کرےگا اور آئی ایم ایف صوبائی حکومتوں کے اخراجات بھی مانیٹر کرےگا۔ شرائط میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مستقبل میں پنجاب حکومت کی طرز پر بجلی کی قیمتوں پر ریلیف نہیں دیا جائےگا اور پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے دوران ضمنی گرانٹس جاری نہیں کرےگا۔ پاکستان زرعی شعبہ، پراپرٹی سیکٹر اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لائے گا۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان نیا نیشنل فنانس معاہدہ کیا جائےگا جس پر بات چیت جاری ہے۔ توانائی کے شعبے کو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے ایک فیصد سے زائد سبسڈی نہیں دی جائےگی، بجلی کی قیمتوں میں کمی کیلئے اصلاحات کی جائیں گی، حکومت بجلی کی قیمتوں میں کمی کیلئے جامع پیکیج لائے گی اور غذائی اجناس کی امدادی قیمتوں کا تعین نہیں کیا جائےگا اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کے ڈھانچے کو کم کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی شرائط مان کر عوام کو پہلے ہی کنگال کیا جاچکا ہے اور لوگ مہنگائی سے اس حد تک تنگ آچکے ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں غریب عوام کی خود کشیوں کی خبریں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ آئی ایم ایف کے آگے مزید سر تسلیم خم کیا گیا تو ملک بھی کنگال ہو جائے گا۔ حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس کی شرائط من و عن مانی جائیں گی تو ملک کا کیا نقشہ سامنے آئےگا۔ آئی ایم ایف کو اپنے قرض کی واپسی سے غرض ہونی چاہیے، عوام کو ریلیف دینے والی حکومتی پالیسیوں میں اسے مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔