پروفیسرسید کرامت حسین جعفری

ایوب خان کے دور میں کسی شخص کا تعلق جماعت اسلامی سے ظاہر ہونا اس کے تمام اوصاف پر پانی پھیردیتا تھا ۔ اس بنا پر حکومت نے ڈیکلریشن دینے سے انکار کردیا ۔ جعفری صاحب نے کہا اتفاق سے میری چند روز قبل ہی ڈپٹی کمشنر سید محمد قاسم رضوی سے ملاقات ہوئی ہے جس میں انہوںنے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا لائل پور میں کوئی ایسا شخص ہے جو یہاں سے معیاری روز نامہ اخبار نکال سکتا ہو اور پھر خود ہی یہ جواب دیا کہ یہ کام صرف خلیق قریشی کرسکتے ہیں ، مگر ان کا اخبار خود ان کی توجہ سے محروم ہے ۔ جعفری صاحب نے مجھے یقین دلایا کہ وہ اب ڈپٹی کمشنر صاحب سے دو بارہ ملاقات کریں گے ، ان کے چہرے سے یہ عیاں ہورہا تھا جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ یہ مسئلہ تو اب حل ہوگیا۔ دو روز بعد جعفری صاحب نے مجھے بُلایا اور کہا کہ سید محمد قاسم رضوی سے مصطفی صادق صاحب اور تم مل لو، وہ کہتے ہیں کہ ڈیکلریشن کی پُرانی درخواستوں کو بُھول کر ایک نئی درخواست دے دو ، میں ڈیکلریشن کی منظوری دے دُوں گا ۔ پھر ایسا ہی ہوا ، ہم قاسم رضوی صاحب سے ملے ان کی خدمت میں نئی درخواست پیش کی لیکن حافظ صاحب کے ہی نام پر.... اور چند روز بعد ہمیںسات روزہ” وفاق“ شائع کرنے کی اجازت مل گئی۔ ظاہر ہے یہ ڈیکلریشن ہمیں جعفری صاحب کی نظرِ کرم سے حاصل ہوا اور جب تک وہ حیات رہے ہمیں ان کی شفقت حاصل رہی ۔ کچھ عرصہ بعد جعفری صاحب کا لاہور تبادلہ ہوگیا ، وہ ایم اے او کالج کے پرنسپل مقرر کئے گئے ۔ پروفیسر مرزا محمد منور بھی گورنمنٹ کالج لائل پور سے تبادلہ کراکے گورنمنٹ کالج لاہور آگئے اور میں بھی لائل پور سے سرگودھا ، سرگودھا سے ملتان ہوتا ہوا 1965ءمیں لاہور آگیا ۔ نئی انارکلی سے باہر کچہری روڈ پر مکتبہ کارواں اس وقت لاہور کے اہلِ علم اور اہلِ قلم کی نشست گاہ تھی ۔ مکتبہ کارواں کے مالک چوہدری عبدالحمید علم و ہنر کی قدر کرنے والے شخص تھے۔ ان کا تعلق پنجاب کی ایک اہم سیاسی شخصیت میاں عبدالباری مرحوم سے تھا جو پاکستان بننے کے بعد پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے وہ کئی بار پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے اور کئی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ چوہدری عبدالحمید، میاں عبدالباری کے داماد تھے ۔ مکتبہ کارواں کی اوپر کی منزل پر تیسرے پہر جو جو نشستیں ہوتی تھیں ان میں جو لوگ شریک ہوتے تھے ان میں پروفیسر کرامت حسین جعفری، مرزا محمد منور ، آغاشورش کاشمیری،” نوائے وقت “ کے اداریہ نویس بشیر احمد ارشد، چیف نیوز ایڈیٹرظہور عالم شہید ، اسسٹنٹ ایڈیٹر اکرام رانا ، ممتاز اقتصادی ماہر محمود مرزا ایڈووکیٹ، احسان دانش اور کبھی کبھار فیض احمد فیض بھی ! یہ لوگ ملکی ، قومی اور ملی مسائل پر غور و فکر بھی کرتے تھے ، مسائل کی سنگینی پر تڑپتے بھی تھے اور اس بات پر فکر مند بھی رہتے تھے کہ پاکستان کس طرف بڑھ رہا ہے۔ میرا زیادہ وقت چونکہ روز نامہ ” وفاق“ کے دفتر میں گزرتا تھا اور کم و بیش سولہ گھنٹے میں وہاں کام کرتا تھا ۔ اس بنا پر میں ان نشستوں میں کبھی شریک تو نہ ہوا مگر اس کی خبریں میرے کانوں تک پہنچتی رہتی تھیں۔ پھر یہ نشست گاہ پروفیسر کرامت حسین جعفری کی تجویز پر مکتبہ کارواں سے محمود مرزا ایڈووکیٹ کے ہاں چلی گئی۔ اس اثناءمیں جعفری صاحب کی نظر کافی کمزور ہوچکی تھی اور وہ کسی مدد گار کے بغیر وہاں نہیں آسکتے تھے لیکن محمود مرزا بہت دیر تک جعفری صاحب کی میز بانی کرتے رہے اور ان کو اپنی مجلسوں کی رونق بنائے رکھا۔ پروفیسر کرامت حسین جعفری کے ضمن میں یہ واقعہ بہت رُوح فرسا ہے جو پروفیسر ایس ایم شریف نے بیان کیا جو ایک زمانے میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد کے طالب علم تھے ۔ ان کو سید کرامت حسین سے بہت قربت تھی۔ وہ راوی ہیں کہ ایک روز دوپہر کے وقت دروازے کی گھنٹی بجی، میں باہر آیا تو جعفری صاحب سامنے کھڑے تھے ۔ چہرے سے پریشانی عیاں تھی ۔ میں نے انہیں کمرے میں بٹھایا، حال احوال پوچھے، فرمانے لگے ، میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کمرے کا دروازہ بند کیا انہیں آرام کے لئے تنہا چھوڑا اور شام کو جب وہ بیدار ہوئے تو میں ان کے ساتھ سامنے والے باغ میں ٹہلنے لگا ۔ فرمانے لگے ! شریف بس اب تم چند دنوں میں سُن لو گے کہ جعفری مرگیا، میں نے یہ جملہ سُنا تو بہت پریشان ہوا ۔ میں نے کہا کہ جعفری صاحب یہ مایوسی کیسی اور کیوں۔ آپ کو تو میں نے ہمیشہ مسکراتے ، ہنستے ہنساتے دیکھا ہے۔ فرمانے لگے، میں صحیح کہہ رہا ہوں، میں نے پھر وجہ دریافت کی فرمانے لگے ! میں گھر پر تھا ، دروازے کی گھنٹی بجی، میں باہر آیا تو پولیس کے دو سپاہی کھڑے تھے ۔ کہنے لگے  باوا تیرا نام ہے کرامت حسین جعفری؟ میں نے ان کی توُ تڑاخ سُنی، گھبراگیا ، کہنے لگے تجھے پولیس نے تھانے میں بُلایا ہے ، چل ہمارے ساتھ! میں ان کے ساتھ چل دیا ، وہاں پہنچتے ہی ایس ایچ او نے آڑے ہاتھوں لیا اور کہا ”تُوں ایں کرامت حسین؟ سانوں وخت پایا ای“(تم کرامت حسین ہو جس نے ہمیں مصیبت میں ڈال رکھا ہے)، میں نے جواب دیا یہ نام میرا ہی ہے لیکن میں نے آپ کو کیا مصیبت ڈالی ہے۔ تھانیدار بو لا توُ اردو ڈائجسٹ میں مضامین لکھتا ہے۔” خبر دار آئند ہ ایہوجئی حرکت کیتی ! تیرے چِٹے وال ویکھ کے چھڈ دتا اے“ یہ کہتے ہوئے جعفری صاحب کی آنکھیں ڈُب ڈبا گئیں ، وہ خاموش ہوگئے ۔ ان پر کیا بیتی ہوگی جس کا انہوںنے اتنا اثر لیا۔ ٹھیک تین روز بعد خبر آگئی کہ کرامت حسین جعفری داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں۔ میں اپنے استاد ، مربی اور محسن سید کرامت حسین جعفری کے جنازے میں تو شریک نہ ہوسکا مگر رسمِ قُل میں شرکت کے لئے جب ماڈل ٹاﺅن میں ان کی قیام گاہ پر حاضر ہوا تو میں نے اس وقت کی بے شمار نامور شخصیتوں کو جعفری صاحب کو ایصال ثواب کے لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھا ۔ ان میں دورِ حاضر کے اردو کے سب سے بڑے شاعر فیض احمد فیض بھی تھے جو قیام پاکستان سے قبل ایم اے او کالج امرتسر میں پروفیسر کرامت حسین جعفری کے رفیق کار رہے تھے۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن