کہنے کو ہم دنیا کی ساتویں اور امت مسلمہ کی پہلی ”ایٹمی طاقت“ ہیں لیکن ہم عمل سے زیادہ بڑھکوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ”اسلامی بم“ کا خواب دیکھنے والے ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے پرائے سب نے سازش کر کے زبردستی پھانسی کے تختے تک پہنچایا تھا تاکہ انکل سام کی خوشنودی حاصل کر کے دنیا میں جینے کے لیے سہولیات حاصل کر لی جائیں پنجاب میں ایک محاورہ ہے ”رب نیڑے کے گھسّن؟ یعنی اللہ نزدیک ہے“ یا ”مکا “ ان دنوں مکا بھی مارشل لا کے آ ئینی ہاتھ صدر جنرل ضیاءالحق کا تھا لہذا نہ ہمالیہ رویا اور نہ سمندر خون سے سرخ ہوا، بس چند جیالے اپنے آپ کو ”نذرآ تش“ کرنے میں کامیاب ہوئے اور چند کو کمبل ڈال کے بچا لیا گیا جو نذر آ تش ہو گئے، جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں ان کو تو پاکستان پیپلز پارٹی کبھی کبھار یاد کر لیتی ہے لیکن جو کمبل ڈال کے بچا لیے گئے ان کا کسی کو پتہ نہیں کہ ان پر کیا بیتی، دراصل 1970ءکے الیکشن نتائج میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے حوالے سے صرف مختلف نہیں تھے بلکہ حالت کار میں بھی زمین و آسمان کا فرق تھا مغربی پاکستان کے حکمران مشرقی پاکستان کو اپنا مفتوحہ علاقہ سمجھتے تھے اسلام آ باد سے دعوے تو بہت کیے جاتے تھے لیکن سب زبانی کلامی، وہاں مجیب الرحمن نے ”پٹ سن“ کی آڑ میں اپنے سرپرست بھارت کی زیرنگرانی کون سی ”فصل“ بوئی کسی کو کوئی فکر نہیں تھی بلکہ جب بنگالی احتجاج اور حق مانگتے تو مغربی پاکستان سے خصوصی مراعات یافتہ پولیس اور فورسز بھیج دی جاتی، دنیا کی طرح ہمیں بھی گمان تھا کہ بھوکے بنگالی ہمارا کیا کر سکتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے عالمی طاقتوروں کا خیال تھا کہ ”بھٹو“ گھاس کھا کر ایٹم بم نہیں بنا سکے گا لیکن اب بنگلہ دیش نے یہ راز فاش کر دیا کہ 1970ءکے الیکشن بھی منصفانہ نہیں تھے مشرقی پاکستان میں ”را“ اور سی آ ئی اے نے میدان گرم کیا۔ جس الیکشن کو ہم غیرذمہ دار اور صاف و شفاف قرار دیتے ہیں اس میں بھی مشرقی پاکستان مکتی باہنی کے غنڈوں اور بھارتی اعلی کاروں کے قبضے میں تھا۔ انہوں نے بھارتی منصوبہ بندی کے تحت من مانی کی۔ دھونس و دھاندلی صرف عوامی لیگ اور مجیب الرحمن کے حق میں کی گئی ورنہ وہاں جماعت اسلامی اور مولانا عبدالحمید بھاشانی جیسی حقیقی سیاسی طاقتیں تھیں اور بہاریوں نے بھی باقاعدہ عوامی لیگ کی مخالفت کی تھی جس کا انہیں آ ج تک خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اور پیپلز پارٹی بھی بھٹو صاحب کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتی تھی لیکن اس وقت بھی آج کی پی ٹی آ ئی کی طرح پی پی پی نے وہی رویہ اختیار کیا تھا جو آج بھی مفادات اور خواہشات میں کیا جاتا ہے۔ مغربی پاکستان کی بھرپور کامیابی پر مشرقی پاکستان پر مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیا گیا۔ آج پی ٹی آ ئی ملک بھر میں مینڈیٹ چوری کی بات کرتی ہے لیکن کے پی کے انتخابات کو صاف و شفاف سمجھتی ہے حالانکہ وہاں جو کچھ بھی ہوا ابھی تک پیر سیاست مولانا فضل الرحمن کھل کر قوم کو نہیں بتا سکے۔ پھر بھی الیکشن کمیشن پر ہر دو جانب سے ”ہوائی فائرنگ“ جاری ہے۔ مولانا موجودہ سیاست سے اپنا حصہ بقدر جثہ بھی چاہتے ہیں اور تحریک انصاف کی تمام تر بدتمیزیوں کے بعد ان سے بغل گیری ہی نہیں، مل کر چلنے کی بات کرتے ہیں اس لیے کہ سیاست میں کوئی بات حتمی ہرگز نہیں ہوتی۔ اگر موجودہ سیاست اور عمرانی حکومت کا جائزہ لیں تو مقبول لیڈر اور مقبول ترین جماعت نے سب سے زیادہ برا بھلا انہیں ہی کہا تھا لیکن وہ صدر زرداری کی طرح ہنس کر بات ٹال کر اپنا مشن جاری رکھتے ہیں۔ چند سالوں میں سیاسی میدان میں ”ہوائی فائرنگ“ کا رواج اس قدر زیادہ ہو گیا ہے کہ اب کوئی چھوٹی سے بڑی شخصیت اور حساس ترین قومی ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں، صدر، وزیراعظم، سپاہ سالار، چیف جسٹس آف پاکستان، وزراے اعلی، گورنرزسب کے سب نشانے پر ہیں بات بگڑ جائے تو ”سوری“۔ غیر مشروط معافی۔ لیکن جو درگزر کر جائے اس کے لیے ہر روز کچھ نیا تیار رہتا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی حکمت عملی دوسروں سے مختلف ہے۔ وہ کسی بھی نان ایشو کو ایشو بنا کر ایسے ”یوٹرن“ لیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور سونے پر سہاگہ ان کے پاس ”سوشل بریگیڈ“ کی سہولت موجود ہے۔ ان پر وزیرآباد کے قریب ایک مرتبہ ”فائرنگ“ ہوئی۔ اس فائرنگ کا انہیں پہلے سے اندیشہ بھی تھا پھر بھی زخمی ہوئے؟ کتنے زخم لگے ابھی تک متنازعہ ہیں لیکن ان کی ہوائی فائرنگ میں کتنے زخمی ہوئے اسکی گنتی ہوئی اور نہ ہی انہیں احساس ہے، اسی لیے انہوں نے میر جعفر، میر صادق، ڈرٹی ہیری، جنگل کا بادشاہ جیسے دور تک مار کرنے والے ”میزائل“ بھی خوب پھینکے بلکہ لاہور میں تو پٹرول بم کا بھی ”لنگر“ تقسیم کیا۔
موجودہ دور میں سیاسی، معاشی، اخلاقی آئینی اور پارلیمانی معاملات ایسے الجھے ہیں کہ سلجھنے میں نہیں آرہے‘ الزام تھا کہ حکومت دنوں کی مہمان، ملک ڈیفالٹ، شہر شہر ہنگامے ایسے پھوٹیں گے کہ ہم کینیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ابتری، بے چینی بھول جائیں گے لیکن حکومتی سخت فیصلے عوام پر بجلی بن کر گرنے کے باوجود اچھے دنوں کے خواب میں سب کچھ مجبورا برداشت کیا گیا۔ اور پھر وہ کچھ ہو گیا جس کی امید نہیں تھی، مہنگائی ہی نہیں، شرح سود میں بھی کمی ہوئی، ملک نہ صرف،، ڈیفالٹ،، سے بچ گیا بلکہ منی بجٹ کا خطرہ بھی ٹل گیا۔ پاکستانی معیشت بہتری کی طرف گامزن، آ ئندہ برس کے لیے جی۔ ڈی۔پی کی شرح بھی 2.8 متوقع ،بین الاقوامی سروے، عالمی ادارے، ایشیائی ترقیاتی بینک بھی پاکستانی کارکردگی پر مطمئن، وزیراعظم کا اقرار ہے کہ یہ سب کچھ دوست ممالک کے تعاون، اتحادی جماعتوں کی مشاورت اشتراک اور عوامی برداشت کے ساتھ ممکن ہوا ہے۔ انہوں نے پنجاب ،بلوچستان اور سندھ کے وزرائے اعلی کا بھی خصوصی شکریہ ادا کیا لیکن خیبر پختون خواہ کے وزیراعلی علی امین گنڈاپور کا تذکرہ کہیں دکھائی نہیں دیا اس لیے کہ وہ اپنے قائد کی طرح بات بات پر ناراض اور تکرار کرتے نظر آتے ہیں۔ بڑھکیں، دھمکیاں، چیلنج ”مولا جٹ“ کی طرح کرتے ہیں لیکن لفظی ہوائی فائرنگ اور کلاشن کوف کے بٹ مار کر کسی غریب ٹرک ڈرائیور کی گاڑی کے شیشے توڑ کر واپس چلے جاتے ہیں۔ وہ دلیر اس قدر ہیں کہ گاڑی سے شہد کی بوتل پکڑی جائے تو دوڑ لگا دیتے ہیں ابھی تک انہیں ”سنگ جانی مویشی منڈی“ کی تقریر ہضم نہیں ہوئی۔ بقول شخصے آ ٹھ گھنٹوں کے طویل آ پریشن سے زبان کو ٹانکے لگا دیے گئے ہیں۔ لیکن عمران خان ان کی مجبوری نہیں سمجھ رہے اب بھی ان سے ”سنگ جانی“ معیار کی ہوائی فائرنگ چاہتے ہیں کیونکہ وہ گنڈاپور کو اس کام کا بادشاہ جانتے ہیں۔ پانچ اکتوبر مینار پاکستان لاہور میں خان اعظم اپنی خواہش کے مطابق ”ہوائی فائرنگ کے بادشاہ“ کا عملی مظاہرہ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں لگ رہا۔ وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے بھی گنڈاپور کو وارننگ دے دی ہے کہ ”بس بھئی بس‘ زیادہ بات نہیں چیف منسٹر صاحب“۔ پنجاب میں آکر قانون توڑو گے تو منہ توڑ جواب بھی ملے گا، دوسری جانب نظام عدل میں بھی آ ئین اور قانون سے بالاتر ہو کر گھمسان کی جنگ جاری ہے وہاں ”بادشاہ اور بادشاہ گر“ آ منے سامنے ہیں ان حالات میں بہتری کے راستے نہیں نکل رہے۔ کل کیا ہونے والا ہے کوئی نہیں جانتا لیکن اسلام آ باد کی فضا چغلی کھا رہی ہے کہ کچھ بڑا ہونے کو ہے؟ ہر شعبے اور معاملے پر لاحاصل ہوائی فائرنگ جاری ہے سوشل میڈیا بے قابو، درست اور غلط کا ملغوبا ”معجون“ بنا کر خوب بیچے جا رہا ہے۔ لیکن مفادات اور خواہشات کی تکمیل میں سب فریب میں مبتلا ہیں حالانکہ پاکستانی قوم میں باصلاحیت لوگوں کی کمی نہیں، تمام تر لوٹ مار، کرپشن، وسائل کے فقدان میں یہ زیرو سے ہیرو بنے لیکن چند ملکی اور بین الاقوامی عاقبت نا اندیشوں نے اسے کوئی نہ کوئی چال چل کر غیر ضروری معاملات میں یوں الجھا دیا کہ جیسےیہی زندگی اور بقا کی لڑائی ہے۔
ہمیں موج مستی کا عادی بنا دیا گیا لہٰذا ہمارے معاشرے نے ہنر مندوں اور باصلاحیت صاحب رائے سے زیادہ تماشہ گیروں، ہوائی فائرنگ کر کے مجمع اکٹھا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی، اسلام آ باد میں ”سکندر“ نے چند برس پہلے فائرنگ کر کے غیرمعمولی توجہ تو حاصل کرلی تھی اور اب جیل کاٹ کر برسوں بعد رہا بھی ہو گیا لیکن کوئی اس راز سے واقف نہیں کہ اس کے اہل خانہ پر کیا بیتی؟ آج کے دور کا ”سکندر“ وزیراعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور ہے۔ ان کی حیثیت ہوائی فائرنگ کے بادشاہ سے زیادہ ہرگز نہیں، کاش۔ انہیں احساس ہو جائے کہ انکے اس انداز سے وہ مولا جٹ بن کر خبروں کی حد تک تو نظر آ سکتے ہیں لیکن گڈ گورننس قائم نہیں ہو سکتی۔ البتہ وہ بیڈگورننس کی ایک منفرد کہانی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
ہوائی فائرنگ کے بادشاہ
Sep 29, 2024