ملکی حالات و معاملات بڑی تیزی سے ابتر صورتحال کی طرف گامزن ہیں ، آج ملک کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی معاملات میں بہتری کی کوئی امید نظر ںنہیں آتی ،حکومت اور سیاسی جماعتوں کی دسترس سے باہر ہوتے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی معاملات ملک کو دیوالیہ کر چکے ہیں ، 2014 ءکے الیکشنوں میں منہ پھٹ غیر سیاسی افراد کی جماعت کا سیاست میں گھس بیٹھنے سے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا اور اب جب کہ معاملات دسترس سے باہر ہو چکے ہیں ، اخلاقیات میں بھی دیوالیہ پن رونما ہے ۔اس معاشرتی بگاڑ کے ذمہ دارملک کے تمام ادارے اور خاص کر سیاسی جماعتیں ہیں ، اداروں نے معاشرے کو تہذیب و تمدن کی حدیں پار کرنےوالوں کی بیخ کنی نہیں کی سیاسی جماعتوں نے افہام و تفہیم کی راہ اپنانے سے فرار کی راہ اپنائی اور ایک دوسرے پر الزامات دھرے ، مخالف منہ پھٹ جماعت نے گالی گلوچ ذاتی نوعیت کے الزامات کو اپنی سیاست کا منشور بنا لیا، اور ملکی ادارے خاموش تماشائی بنے رہے بلکہ انہیں مراعات دینے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔
ملک کا سیاسی ماحول بونی سیاسی شخصیات کی وجہ سے سیاسی نہیں رہا ، سیاست کی جگہ دھرے معیار اور منافقت نے اپنا لی ہے، ایک دوسرے کی عیب جوئی اور فلمی ولن کے انداز نے سیاست کو پرا گندہ کیا ہوا ہے ، خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی نے ولن کے روپ کو دھار کر یہ سمجھ لیا ہے کہ اس انداز سے شہرت میں اضافہ ہو گا اور نئی نسل میں اس انداز کو خوب پذیرائی ملے گی، تہذیب کے دائرے سے نکل کر بیان بازی کسی طور اچھا عمل نہیں کہلا سکتا ،جس میں ملکی اداروں کو نشانہ بناتے ہوئے تردد نہیں کیا جاتا ، بد قسمتی سے ملک کی سیاسی قیادت میں عقل و شعور سیاسی بلو غت اور علم و دانش کے فقدان نے نئی نسل کو غیر مہذب کر دیا ہے وزیر اعلی خیبر پختونخواہ کے بیانات اور عملی اقدام ریاست مخالف ہوتے جا رہے ہیں لیکن ادارے خاموش ہیں لگتا ہے کہ ملک کے موجودہ سیاسی معاملات ان کی دسترس سے باہر ہیں ، ملکی سیاست میں معاشرتی تقاضوںکا معاملہ بلکل بر عکس ہے ، اب سیاست میں خود غرضی ، لالچ اور دھوکہ دہی کے علاوہ عدم رواداری اور عدم برداشت کی وجہ سے معاشرے کا بیرونی خول نظر آتا ہے لیکن اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے ۔
ایسے غیر یقینی سیاسی صورتحال کی پیشِ نظر عوام کو دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن نظر نہیں آتا ، 2022 ءسے ملک شدید سیاسی بحران میں مبتلا ہوا جب پی ٹی آئی کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے باہر کیا گیا جس کے بعد کئی مہینوں تک احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور معاشی سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئیں، ملک کے طول و عرض میں صنعتوں کا ایسا بحران پیدا ہوا کہ گھریلو اور چھوٹے درجے کی صنعتیں بند ہونے لگیں ، سب سے زیادہ خیبر پختونخواہ میں صنعتوں کا جنازہ نکلا صوبے کی رائے عامہ اور صنعت کار صوبہ خیبر پختونخواہ کو صنعتوں کا قبرستان کہتے ہیں، انڈس موٹر کمپنی نے پاکستان سٹاک ایکسچینج کو اپنے خط کے ذریعے مطلع کیا کہ کمپنی کو خام مال کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے سپلائی چین کو برقرار رکھنے میں دشواری ہے نیز گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس کی قلت کی وجہ سے پیداواری عمل شدید متاثر ہے ، لہذا عارضی طور پر کمپنی کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،ملک کی بڑی صنعتیں حکومت کی طرف سے ایل سی ( لیٹر آف کریڈٹ) کی پابندی کے پیش نظر پیداواری صلاحیت سے محروم کر دی گئی ہیں ، جس سے ملک کی معیشت کا بیڑا غرق ہو رہا ہے ، صوبہ سندھ میں سکنڈری ایجوکیشن نظام تعلیم کو اپ گریڈ کرنے کے لئے ایشین ڈولپمنٹ بینک ( اے ڈی پی) اور سندھ حکومت میں معاہدہ کے تحت اے ڈی پی نے 75 ملین ڈالر کی منظوری دی جبکہ اس میں سندھ حکومت کا حصہ 7.5 ملین ڈالر ہے ،اس طرح پروجیکٹ کی مجموعی لاگت 82.5 ملین ڈالر بنتی ہے ، تاحال اس زمرے میں کوئی پیش رفت منظر پر نہیں ہے ، ملک کی معیشت پر اسطرح کے قرض لے کر انہیں مجوزہ پروجیکٹس پر خرچ نہ کرنا ملکی معیشت کو اندھے کنویں میں دھکیلنے کے مترادف ہے ۔
1958 ءکے بعد سے بیرونی قرضوں کے حصول میں سال بہ سال اضافے نے ملک کی معیشت کو دیوالیہ کر دیا ہے اب تو جو کچھ بھی خزانے میں ہے وہ دوست ممالک کی امانت ہے جو کہ دنیا کو دکھلانے کے رکھی ہوئی ہے، ویسے تو ملک حتمی طور پر دیوالیہ ہے ، حالیہ برسوں میں بجلی گیس، گندم کا آٹا ، گوشت اور چاول ، گھی ، خوردنی تیل روزمرہ کی اشیاءصرف کی قیمتوں میں کئی بار پچاس فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے، جس سے عوام پریشان حال ہیں لیکن حکمران ہر ماہ بجلی گیس کے بلوں کا بم گرانے سے گریز نہیں کرتے ، اگر اس نہج پر پہنچے ملکی حالات کو سدھارنے کی اور بطور معاشرہ اجتماعی اصلاح کرنے کی کوشش نہ کی تو کوئی بعید نہیں کہ دوست اسلامی ممالک ایک دن ہم سے لا تعلقی اختیار کر لیں ۔
ملک کے اشرافیہ اور اعلی ایوانوں میں قانون شکنی ، فرائض کی عدم ادائیگی، نا انصانی ، خود غرضی ،عدم برداشت اور عدم مساوات جیسے مسائل ملک کی جڑیں کمزور کر رہے ہیں ، موجودہ پراگندہ سیاسی ماحول صفائی کا متقاضی ہے ، کمزور اورجلد بازی کے فیصلے ملک میں انتشار کا سبب بن رہے ہیں ،ملکی اداروں میں چپقلشوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماتحت سربراہ سے سرکشی پر نازاں ہیں،حکومت کو ملک کے سیاسی ، معاشی اور دسترس سے باہر ہوتے عوامل کو عوای سطح پر سچائی سے آگاہی دینی ہوگی ،بصورت دیگر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا ، جب لاد چلے گا بنجارا
تو بدھیا لادے بیل بھرے جو پورب پچھم جاوے گا
یا سود بڑھا کر لاوے گا یا ٹوٹا گھاٹا پاوے گا
قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا
دھن دولت ناتی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا