یہ کئی برس پہلے کی بات ہے۔ میں اپنی آنکھوں میں اللہ کے حضورشکر کے آنسو سمیٹے فاطمہ جناح روڈ پر فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے مین گیٹ میں داخل ہوا۔ رطابہ کرن ، میری بڑی بیٹی کو میڈیکل کی تعلیم کے لئے جناح میڈیکل کالج میں داخلہ ملا تھا۔ لاہور کالج فار ویمن سے ایف ایس سی کے بعد اس روز تک ہم نے کئی مدو جذر دیکھے تھے جو لاہور بورڈ سے متعلق تھے اور اب جن کا تذکرہ بے سود ہے۔ وقت کتنا تیزی سے گزرتا ہے۔ یہ دونوںتعلیمی ادارے اب کالج کے مقام سے آگے بڑھ کر یونیورسٹی کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔یہی کیفیت دوسرے والدین اور ان کے ہمراہ ایک خوشگوار مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے سٹوڈنٹس کی تھی۔ڈاکٹر رطابہ کرن نے اس باوقار ادارے میں پانچ سال گزارے۔ گویا میں نے اتنی مدت قدم قدم ایک ایک دن گن کر اس ادارے کو ہرپہلو سے دیکھا۔ ایم بی بی ایس کے بعد میری بیٹی میو ہسپتال میں سپیشلائزیشن کےلئے گئی اور اور ایف سی پی ایس کے بعد اب وہیں ایک سینئر ڈاکٹر کے طور پر فرائض انجام دے رہی ہے لیکن نہ اسکے لا شعور سے اپنی پہلی مادر علمی کا حسن محوہوا ہے اور نہ میں نے کبھی اس سراپا محبت ادارے کو اپنی یادوں سے محو ہونے دیا ہے۔اس تاریخی ادارے سے محبت کی صرف یہی ایک وجہ نہیں ہے۔ اس کی عظمت اور اہمیت کا اور بھی پس منظر ہے۔ لاہور میں میڈیکل تعلیم کےلئے دوسرے ادارے بھی ہیں اور ان کی بڑا مقام ہے لیکن صرف اور صرف خواتین کی میڈیکل تعلیم کیلئے نام سمیت قائد اعظم کی منظوری سے جس واحد میڈیکل کالج کی بنیاد رکھی گئی وہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج ہے اس کالج ، جو اب یونیورسٹی کا درجہ رکھتا ہے۔اس کی بنیاد پارٹیشن سے پہلے ہندوﺅں کیلئے میڈیکل کی تعلیم کیلئے کھولے گئے بلک رام میڈیکل کالج کی عمارت میں ہنگامی طور پر اس لئےرکھی گئی کہ نئے ملک میں لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کے برابر تھیں اور ہجرت اور حالات کی سختیوں کی ماری خواتین کے علاج معالجے کیلئے لیڈی ڈاکٹروں کی ا شد ضرورت تھی۔ یہ تاریخ ساز ادارہ 1948 میں80 بیڈ سے 2024 میں1402 بیڈ تک اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی تک کیسے پہنچا۔ اسکی میڈیکل کے شعبے میں کیا کیا خدمات ہیں اور کیسے کیسے محنتی مخلص اور تعلیمی حوالے سے بڑے قد کے اساتذہ اور منتظمین کے خون جگر نے اس پودے کو گھنا سایہ دار اور پھل دار پیڑ بنایا ہے اس کی چشم کشا تفصیلات ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل جہازی سائز کی کتاب میں دی گئی ہیں جو اس یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل کی کاوشوں سے
FATIMA JINNAH MWDICAL UNIVERSITY LAHORE-76 YEARS OF EXCELLENCEے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے۔ اگرچہ فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ اس وقت مزنگ ٹیچنگ ہسپتال اور شاہدرہ ٹیچنگ ہسپتال بھی ملحق ہیں لیکن اس کا بنیادی ڈھانچہ سر گنگا رام ہسپتال کے ساتھ جڑا ہے۔
سر گنگا رام ہسپتال کے پس منظر میں سر گنگا رام کی انسان دوست شخصیت کا پرتو ہے تو فاطًمہ جناح میڈیکل یونیوسٹی کو عمارت کی سہولت فراہم کرنے والے بلک رام میڈیکل کالج کی بنیاد بھی سر گنگا رام کے بیٹے بلک رام کے نام پر رکھی گئی تھی اور گنگا رام کی بہو اور بیٹے نے ایک سو کے لگ بھگ دوسرے افراد ا سے مل کر فنڈ ریزنگ سے اس نیک کام کا آغاز کیا تھا۔ ہندوﺅں کیلئے مختص بلک رام کالج قیام پاکستان کے بعدبند ہو گیا تو اس کی عمارت کو فاطمہ جناح میڈیکل کالج کیلئے استعمال میں لایا گیا۔ جو وقت کے ساتھ اب یونیورسٹی ہے۔ دوسری بار اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے منصب پر فائز ہونیوالے پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود گوندل کو اللہ تعالی نے ایک اچھے منتظم اور تخلیقی دماغ سے نوازا ہے سو یہ جہاں رہے کچھ نیا سوچا۔ اپنے ساتھیوں کو نہ صرف ساتھ لے کر چلے بلکہ ان میں سے ہر ایک کی صلاحیتوں کو نکھرنے اور ادارے کیلئے کام میں لانے کے مواقع پیدا کئے۔ انہوں نے کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عرصہ تقرری میں بھی اس تاریخی ادارے کی پوری تاریخ کو خوبصورت انداز میں ایسی ہی ضخیم کتاب کی صورت میں محفوظ کر دیا تھا اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے کمکولین نے اسے سراہا تھا۔ اب فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کی قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی تاریخ اور ارتقائی مراحل کو مصدقہ معلومات، تصاویر اور حوالوں کے ساتھ پیش کر کے اس یونیوسٹی کے تمام وابستگان اور عام پاکستانیوں کو ایک بڑا تحفہ دیا ہے۔
آج کی سیاست کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن ایسی کتابوں میں موجود تاریخ پر بھی نظر ڈالتے رہنا ضروری ہے جو ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہمیں آزادی کی نعمت ملی تو زندگی کے مختلف شعبوں کی صورتحال کیا تھی۔ آج خواتین کی میڈیکل سروس کیلئے موجود بے شمار لیڈی ڈاکٹر موجود ہیں لیکن قیام پاکستان کے وقت حالت کیا تھی۔ تقسیم کے وقت بر صغیر میں لیڈیز کیلئے دو میڈیکل کالج، لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج دہلی اور ویمن کرسچین میڈیکل کالج لدھیانہ تھے اور یہ دونوں بھارت میں رہ گئے۔ سماجی روایات کو ایجوکیشن کی راہ میں حائل تھیں اور مردوں سے علاج ویسے بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس پس منظر میں پاکستان میں لیڈیز کے پہلے میڈکل کالج کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔اسی اہمیت کے باعث اس کالج اورخاص طور پر اسکے نام کی قائد اعظم سے منظوری بھی ضروری سمجھی گئی اور وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے 31مارچ1949 کو اس کا باقاعدہ افتتاح کیا۔اگرچہ محترمہ فاطمہ جناح اپنے نام سے بننے والے اس پہلے میڈیکل کے ادارے کی چیف پیٹرن کی حیثیت سے مسلسل رابطہ رکھتی تھیں لیکن 1950 کے کنووکیشن کے موقع پر وہ خود بھی کالج میں تشریف لائیں۔ یہ منظر دیدنی تھے اور اس خوبصورت کتاب میں اس حوالے سے بھی تصاویر او ر تفصیلات دی گئی ہیں۔ کتاب کے ساڑھے تین سو صفحات میں میڈیکل سرجیکل سمیت تمام شعبوں کی تدریجی پیشرفت اور کالج کے پرنسپلز پروفیسرز نے خوبصورت تصاویر اور خدمات کی تفصیل دی گئی ہے۔ 2015 میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کرنے کے بعد جناب خالدمسعود گوندل پہلی بار جب فاطمہ جناح یونیورسٹی کے پہلے ریگولر وائس چانسلر کے طور پر آئے تو مختصر عرصے میں انہوں اپنی انتظامی ٹیم کے تال میل سے اتنے کام کئے اوراساتذہ اور سٹوڈنٹس میں اتنے مقبول ہوئے کہ جب وہ گئے تو یونیورسٹی کی فضا کئی دن اداس رہی۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیور سٹی میں وائس چانسلر کا عرصہ گزار کر جب دوبارہ فاطمہ جناح یونیورسٹی جیسے باوقار ادارے میں وی سی کی حیثیت سے آئے ہیں تو جیسے پھر سے بہت کچھ بدلنے لگا ہے۔
٭....٭....٭