شو ق ِ ہجرت

آج کل امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا جانے اور وہاں کی شہریت حاصل کرنے کا رجحان ضرورت، رواج اور فیشن سے زیادہ ایک وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اگرچہ ہر عمر اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ دامے دِرمے قَدَمے سخَنے اِس بظاہر پر کشش ہجرتی تحریک میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں مگر ستاروں پہ کمند ڈالنے والے اپنے مستقبل کو محفوظ، خوشحال اور پر لطف بنانے کے لئے زیادہ متحرک اور پر عزم دکھائی دیتے ہیں۔ ہجرت کے پیچھے بھی بے پناہ دولت اور شہرت کا حصول کارفرما ہوتا ہے۔ میگوئل ڈی لیوس کا قول ہے، ”سرمایہ داری مذہب ہے۔ بینک چرچ ہیں۔ بینکر پادری ہیں۔ دولت جنت ہے۔ غربت جہنم ہے۔ امیر اولیاءہیں۔ غریب گنہگار ہیں۔ اشیاءنعمت ہیں۔ جائیداد مقدس (god) ہے۔“ 
اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اب وہی لوگ رہ جائیں گے جن کے پاس باہر جانے کی اہلیت، قدرت اور استعداد نہیں ہوگی۔ یہ توجہ طلب صورتحال حکومتِ وقت کو غوروفکر کے لئے دعوتِ عام دے کر کچھ انقلابی اقدامات کر گزرنے پر اکسا رہی ہے مگر حکومت اپنی بقا کی بازیاں لگانے، خود کو مستحکم کرنے اور سیاسی مخالفین کو مزید ’نکرے‘ لگانے کی دھن کے سوا کسی اور سوچ بچار میں مبتلا ہو کر اپنی فطری ذہنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔ 
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بیرون ملک نقل مکانی کرنے والوں میں سرِفہرست بھارت کے باشندے ہیں جبکہ اِس حوالے سے بنگلہ دیش اور پاکستان بالترتیب چھٹے اور ساتویں نمبر پر ہیں۔ لہٰذا حکومتی عدم توجہی کی ایک وجہ مسئلے کا قومی کی بجائے بین الاقوامی ہونا بھی ہو سکتا ہے۔ برصغیر کے یہ تینوں ممالک برطانیہ سے حاکمیت و محکومیت کے تاریخی بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اِس قدیم قلبی نسبت سے یہاں کے بیشتر باشندے برطانیہ جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ البتہ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ برطانوی بادشاہ کا بیٹا، ڈیوک آف سسیکس، شہزادہ ہیری اور انکی اہلیہ، ڈچز آف سسیکس میگھن مارکل 2020ءمیں اپنی مروجہ شاہی زندگیوں کو خیر باد کہہ کر امریکہ میں آباد ہو چکے ہیں۔ اپنے دونوں بچوں آرچی اور للیبیٹ کے ساتھ امریکی ریاست کیلیفوریا میں مقیم یہ جوڑا آجکل شاہی پروٹوکول کے بغیر عام امریکی شہریوں کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔ 
جو لوگ درج بالا ممالک کی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، انکی شخصیت میں عرصہءقلیل کے دوران مادی خوشحالی کے علاوہ دیگر مثبت تبدیلیاں بھی رونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں جو شاید پاکستان میں رہتے ہوئے تمام زندگی نہ آ سکتیں۔ مشرق و مغرب کی عمومی سوچ اور مزاج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ فرق ہمیں پاکستان میں موجود اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں، یعنی یونیسف، یو این ڈی پی یا یو این ایچ سی آر وغیرہ میں بھی نظر آتا ہے۔ دفتر میں کام کرنے والے ملازمین کے علیحدہ علیحدہ ڈیسک بنے ہوتے ہیں اور ہر کوئی اپنے کام میں منہمک ہوتا ہے۔ وہاں آپ کو کوئی اخبار نہیں ملے گا۔ فیس بک آن نہیں ہوگی۔ وہاں چائے یا کھانے کے وقفے کے علاوہ کسی کو غیر دفتری معاملات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے نہیں دیکھا جا سکتا۔ کوئی سپرنٹنڈنٹ، پی اے، کلرک یا نائب قاصد نظر نہیں آئے گا۔ کسی دفتری کام کی صورت میں ایک اہلکار دوسرے متعلقہ ساتھی کے پاس جا کر اس سے وہ ایشو زیرِ بحث لائے گا اور پھر واپس اپنی سیٹ پر براجمان ہو کر اپنا کام دوبارہ شروع کر دے گا۔ دفتری اوقات کے دوران اگر دفتر کا کوئی سینئر ترین آفیسر حتیٰ کہ سربراہ بھی آ جائے تو وہ احتراماً ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونے کی بجائے بدستور بیٹھے ہوئے اس کی بات سنے گا۔ پروٹوکول کا خیال، نہ جی حضوری کا جنجھٹ۔ اور ہاں!! وہاں کسی کو سر یا صاحب کہہ کر نہیں بلکہ نام کےساتھ پکارا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں افسر، (صاحب) سپرنٹنڈنٹ، اسسٹنٹ، کلرکس، نائب قاصد اور ڈرائیور کے بغیر دفتر کا تصور ہی ادھورا اور دھندلا سا لگتا ہے۔ نائب قاصد اور پی اے دفتری کام کم اور صاحب کے ذاتی کام زیادہ کرتے ہیں۔ اختیارات misuse ہوتے ہیں۔ سٹاف کو ذرا ذرا سی بات پر بلا کر اس کی رسوائی کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں۔ سیاست، مذہب حالاتِ حاضرہ اور سماجی مسائل پر وہ ٹی وی اینکر کی طرح گفتگو کرنے کا انداز اپناتا ہے۔ وہ جب دفتر میں قدم رنجہ فرماتا ہے تو آفس ٹائم شروع ہو جاتا ہے اور تشریف لے جاتا ہے تو دفتر کا وقت بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ سہولت باقی دفتری ملازمین کیلئے نہیں ہوتی۔ مدتوں سے ہمارے ہاں اِس بے اصول فضا میں یہی اصول لاگو رہے ہیں۔
عبدالخالق، ریٹائرڈ بینکر، میرا یونیورسٹی کے زمانے کا بے تکلف دوست ہے۔ اس کا بیٹا حصولِ تعلیم کےلئے جرمنی گیا اور پھر وہیں روسٹوک شہر میں سکونت پذیر ہو گیا۔ وہ سال میں ایک دفعہ نوے دن کےلئے بیٹے سے ملنے ضرور جاتا ہے اور واپسی پر مجھے وہاں گزرے ہوئے شب و روز کی تفصیلات لہک لہک کر سناتا ہے۔ وہ بتا رہا تھا، ”اللہ نے جب مجھے پوتے سے نوازا تو ایک فیملی مبارکباد دینے کےلئے برلن سے دو اڑھائی سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے بیٹے کے گھر آئی۔ وہاں عام طور پر گھر بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ باورچی خانے میں دو صحت مند آدمیوں کی موجودگی میں کسی تیسرے کی گنجائش بمشکل ہی نکلتی ہے۔ کھانا تیار ہوا تو مہمان اور میزبان ایک ایک کرکے باورچی خانے میں گئے اور حسبِ ضرورت پلیٹ میں کھانا ڈال کر کمرے میں آ کر کھانے لگے۔ کھانا ختم ہوا۔ مہمان کو وہاں موجود نہ پا کر تشویش ہوئی تو کچن کا رخ کیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ کچن میں برتن دھو رہے تھے۔ مسکراتے ہوئے گلہ کیا تو کہنے لگے یار! میں نے ادھر آ کر یہ بھی سیکھا ہے کہ جدھر بھی کوئی کام نظر آئے، فوراً کر دو۔ میرے دوست نے یہ بات پلے باندھ لی اور پاکستان واپسی پر اس پر عمل کرنا بھی شروع کر دیا۔ 
میں نے اپنے دوست کے ہمراہ بڑھاپے کی رفتار کو قدرے تھم تھم کر چلانے کی غرض سے ایوب پارک، راولپنڈی میں بغیر کسی ممبرشپ فیس کے ”سٹے فٹ کلب“ جائن کیا ہوا ہے۔ اتنا green lush سبزہ راولپنڈی، اسلام آباد کے کسی اور پارک میں نظر نہیں آتا۔ تقریباً نوے منٹوں پر محیط جسمانی ورزش کے تین مختلف سیشن ہوتے ہیں۔ خوب پسینہ بہتا ہے۔ جب میرے دوست نے فخریہ انداز میں دوسری دفعہ اپنی یہ بات دہرائی، ”یار میں پسینے کے اثرات کی کوفت سے بچنے کےلئے گھر پہنچتے ہی شرٹ اور پاجامہ دھو ڈالتا ہوں“ تو اس سے مجھے بھی تحریک ملی اور ایک دن میں نے بھی یہ ہنر آزما ڈالا۔ اِس پر میری بیوی معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے کہنے لگی، ”واہ! کیا بات ہے!! میں اِس گھڑی کا گزشتہ چالیس سال اور پانچ ماہ سے بے تابی کے ساتھ انتظار کر رہی تھی۔“

ای پیپر دی نیشن