جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم کا پرعزم اور مدلل خطاب

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین میں قتل و غارت گری اور ناجائز قبضہ ہر روز ایک نئی جہنم کو جنم دیتا ہے۔ فلسطین کو فوری طور پر اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کیا جائے۔ گزشتہ روز نیویارک میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے اقوام متحدہ کی رکن عالمی قیادتوں کو باور کرایا کہ تنازعات کے حل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی‘ موسمیاتی تبدیلی اور اسلامو فوبیا کے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری کی اجتماعی کاوشیں درکار ہیں۔ خطہ میں پائیدار امن کے حصول کیلئے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات واپس لینا ہونگے۔ پاکستان کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیگا۔ عزم استحکام کے ذریعے ہم دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں اس امر کو بھی واضح کیا کہ پاکستان افغانستان میں حالات جلد از جلد معمول پر لانے کا خواہاں ہے۔ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری کے وعدوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں۔ 
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کشمیر اور فلسطین کے تنازعات‘ یوکرائن جنگ‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پیدا ہونیوالے مسائل کا مفصل تذکرہ کیا اور دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت اور قرضوں کے بوجھ سمیت متعدد علاقائی اور عالمی مسائل کا بھی احاطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کے منشور کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دنیا کے امن اور خوشحالی کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرینگے۔ وزیراعظم کے بقول آج ہمیں عالمی نظام کیلئے انتہائی کٹھن چیلنجز درپیش ہیں جن میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کی جنگ‘ یوکرائن میں خطرناک تنازعہ‘ افریقہ اور ایشیاءمیں تباہ کن تنازعات‘ بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی کشیدگی‘ دہشت گردی کا دوبارہ سر اٹھانا اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات شامل ہیں۔ ان چیلنجوں کی روشنی میں ہم ایک نئی سرد جنگ کی شدت محسوس کر رہے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے دل گرفتگی کے ساتھ اس امر کا اظہار کیا کہ غزہ کی مقدس سرزمین پر رونما ہونیوالے سانحات کو دیکھ کر ہمارے دل خون کے آنسو روتے ہیں۔ ہم بحیثیت انسان خاموش کیسے رہ سکتے ہیں۔ کیا ہم ان ماﺅں کی طرف آنکھیں بند کر سکتے ہیں جو اپنے بچوں کے بے جان جسموں کو جھولا دیتی ہیں۔ یہ صرف ایک تنازعہ نہیں‘ یہ معصوم لوگوں کا منظم قتل اور انسانی زندگی اور وقار کی روح پر حملہ ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ اس تنازعے کو طول دینے میں شریک لوگوں کے ہاتھ بھی غزہ کے بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اس بربریت کی صرف مذمت کرنا ہی کافی نہیں‘ ہمیں اب اس انسانی قتل اور خونریزی کو فوری بند کرنے کا بھی تقاضا کرنا چاہیے۔ ہمیں دو ریاستی حل ذریعے پائیدار امن کیلئے کام کرنا ہوگا‘ انہوں نے باور کرایا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد میں ناکامی اسرائیل کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔ یہ صورتحال پورے مشرق وسطیٰ کو ایک نئی جنگ کی طرف گھسیٹ کر لے جارہی ہے جس کے نتائج عالمی سطح پر تصور سے بھی کہیں زیادہ برے ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے عالمی قیادتوں کو یاد دلایا کہ فلسطین کے عوام کی طرح جموں و کشمیر کے لوگ بھی اپنی آزادی اور حق خودارادیت کیلئے ایک صدی سے جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ اگست 2019ءسے بھارت نے جموں و کشمیر کے اپنے ناجائز زیرتسلط علاقوں کو بھارت میں اپنے تئیں ضم کرکے وہاں تعینات 9 لاکھ بھارتی فوجیوں کے ذریعے کشمیری عوام پر ظلم و بربریت کی انتہاءکر رکھی ہے اور اب بھارت کشمیریوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر بھی قبضہ کررہا ہے۔ 
وزیراعظم نے باور کرایا کہ پائیدار امن کے حصول کیلئے بھارت کو تمام یکطرفہ اور غیرقانونی اقدامات واپس لینا ہونگے۔ غزہ اور لبنان میں جاری اسرائیلی بربریت کیخلاف جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کی جانب سے نہ صرف ٹھوس اور جاندار موقف پیش کیا گیا بلکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر احتجاجاً اجلاس کا بائیکاٹ بھی کیا گیا اور وزیراعظم شہبازشریف کی قیادت میں پورا پاکستانی وفد اجلاس سے اٹھ کر باہر چلا گیا۔ اسی طرح کئی دوسرے ممالک کے مندوبین بھی نیتن یاہو کی تقریر کے دوران اٹھ کر باہر چلے گئے۔ 
وزیراعظم شہبازشریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بالخصوص فلسطین اور کشمیر کے ایشوز پر بلاشبہ پوری قوم کے جذبات کی مدلل ترجمانی کی اور دوٹوک انداز میں پاکستان کا موقف پیش کیا۔ انہوں نے علاقائی اور عالمی سطح پر انسانوں کو درپیش تمام مسائل کا مکمل احاطہ کیا اور ان مسائل سے انسانی برادری کی بقاءکو لاحق خطرات سے بھی بجا طور پر آگاہ کیا۔ بلاشبہ ان مسائل کا جنرل اسمبلی کے ہر سالانہ اجلاس میں تذکرہ ہوتا ہے اور عالمی نمائندے ان مسائل پر رسمی طور پر تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر اجلاس کے اختتام پر ”رات گئی‘ بات گئی“ کے مصداق عالمی قیادتیں نشستند‘ گفتند‘ برخاستند کی رسم ادا کرتے ہوئے اپنے اپنے ممالک واپس لوٹ جاتی ہیں جبکہ برتری کے زعم میں بڑے ممالک کے اپنے پیدا کردہ مسائل گھمبیر سے گھمبیر تر ہو رہے ہیں جس کے حل کیلئے مجاز فورموں کی جانب سے عملی اقدامات اٹھانے سے گریز کیا جاتا رہا تو یہ صورتحال بالآخر پورے کرہ ارض کی تباہی پر ہی منتج ہو گی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسانی بقاءکو اقوام متحدہ کے رکن بعض ممالک کے جنگ و جدل والے عزائم سے ہی خطرہ لاحق ہے جو انکے توسیع پسندانہ عزائم کا شاخسانہ ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے تنازعات برطانیہ اور امریکہ کی شہ پر بھارت اور اسرائیل کے پیدا کردہ ہیں جس کے پیچھے مسلم دنیا کو زیربار کرنے کے الحادی قوتوں کے عزائم شامل ہیں۔ ارض فلسطین پر اسرائیل کی ناجائز ریاست بھی برطانیہ اور امریکہ نے ہی تشکیل دلائی اور پھر کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کی بنیاد پر دو ریاستی حل کی تجویز بھی انہی ممالک کی جانب سے سامنے لائی گئی اور اقوام متحدہ نے دو ریاستی حل کی قرارداد بھی منظور کرلی مگر ناجائز ریاست اسرائیل کو تسلیم کرانے والی اس قرارداد پر بھی عملدرآمد نہ کرایا جا سکا اور صہیونیوں نے پرپرزے نکالتے ہوئے فلسطینیوں کو انکی سرزمین سے نکالنے کیلئے ان پر وحشت و بربریت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا اور مسلمانوں کے قبلہ اول پر بھی اپنا تسلط جمالیا۔ اس تناظر میں فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی کسی عالمی قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتی مگر انکی آواز دبانے کیلئے امریکی ایماءپر کون سا ایسا ہتھکنڈہ ہے جو اسرائیل کی جانب سے آزمایا نہیں گیا۔ ان پر 77 برس سے جاری اس بربریت کیخلاف ہی گزشتہ سال 8 اکتوبر کو حماس کی جانب سے جوابی کارروائی کی گئی جس کا آج کے دن تک خواتین اور بچوں سمیت معصوم فلسطینیوں کو خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے اور اسرائیل کی آتش انتقام کہیں ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی۔ پوری دنیا اور تمام عالمی اور علاقائی قیادتیں گزشتہ ایک سال سے فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کٹتا ہوا دیکھ رہی ہیں۔ پوری غزہ پٹی کو عملاً قبرستان بنا دیا گیا ہے اور اب لبنان میں بھی اسرائیل بے گناہ انسانوں کے پرخچے اڑا رہا ہے مگر اسرائیل کی اس بربریت پر سوائے رسمی مذمتی بیانات اور اقوام متحدہ کی محض بے جان قراردادوں کے‘ اسرائیل کے وحشی ہاتھ روکنے کا اقوام عالم کی جانب سے بھلا کوئی عملی اقدام اٹھایا گیا؟ حد تو یہ ہے کہ جنرل اسمبلی کے موجودہ اجلاس میں بھی انسانی بقاءکو لاحق اس سنگین مسئلہ کے تدارک کیلئے کسی عملی پیش رفت کی بنیاد نہیں رکھی گئی۔ 
یہی معاملہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ہاتھوں درپیش ہے جس نے قیام پاکستان کے وقت سے ہی کشمیریوں سے آزادی اور استصواب رائے کا حق چھین رکھا ہے جبکہ یہ حق بھی خود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی نے اپنی متعدد قراردادوں کے ذریعے تسلیم کیا ہوا ہے۔ اگر اقوام متحدہ ایسے عالمی اور علاقائی تنازعات کے حل کیلئے اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں بھی ناکام ہے تو انسانی بھائی چارے‘ خردمندی اور صلح جوئی کی توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے ممالک سے بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح دہشت گردی اور اسکے پھیلاﺅ میں بھی برتری کے زعم میں مبتلا ممالک کا ہی عمل دخل ہے جو سلامتی کونسل پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات بھی بنیادی طور پر بڑی صنعتوں اور معیشتوں کے حامل ممالک کے پیدا کردہ ہیں جنہیں متاثرہ ممالک کی مدد سے متعلق انکے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنوانے میں بھی اقوام متحدہ ناکام ہے۔ یہ ساری بے عملیاں اور زورآوروں کے ہاتھ نہ روکنے کی روش ہی انسانی بقاءکے خاتمے کی جانب بڑھتی نظر آرہی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے تو انسانی بقاءکو لاحق ان خطرات سے عالمی قیادتوں کو مفصل آگاہ کردیا ہے۔ اب اس کیلئے عملیت پسندی کی طرف آنا ہی اقوام متحدہ اور عالمی قیادتوں کیلئے اصل چیلنج ہے۔

ای پیپر دی نیشن