سیاسی قیادت ملک میں معاشی استحکام کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔ معاشی استحکام میں وقت تو لگے گا، بالخصوص معاشی اصلاحات کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ اس مقصد کو پورا کرنے اور ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دلیرانہ، بے رحمانہ اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر فیصلے کرنا ہوں گے۔ بالخصوص اس طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے جو آج تک مختلف طریقوں سے بچا رہتا ہے۔ آج ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنا کر ہم اس منزل کی طرف بڑھ سکتے ہیں جس کا خواب دیکھا گیا تھا یا ہم اس خواب کی تعبیر پا سکتے ہیں جو ہمارے بزرگوں نے اس ملک کے حوالے سے دیکھا تھا۔ ہم ایٹمی طاقت بنے، دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا پھر ہم کیوں معاشی طاقت نہیں بن سکتے، باوجود اس کے کہ ہمارے پاس وہ تمام وسائل موجود ہیں کہ ہم معاشی اعتبار سے بھی ترقی کریں لیکن اس کے باوجود ہماری معاشی کشتی ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔ آج ڈالر کی قیمت میں ٹھہراؤ ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے، یہ چیزیں بہرحال مثالی تو نہیں اس میں مزید کمی اور استحکام سے عام آدمی کے مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں اور معاشی ترقی کا سفر بھی تیز ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی اس راستے پر ضرور ہیں کہ اگر ایسے ہی فیصلے ہوتے رہے اور بڑے لوگوں کے حوالے سے ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر سختی کی گئی تو یقینا بہتری آئے گی۔ آئی ٹی کی بڑھتی ہوئی برآمدات، براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے موصول ہونے والی ترسیلات زر پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس میں خطیر اضافے کا باعث بنیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اگست 2024 میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس تین ماہ تک منفی رہنے کے بعد 75 ملین ڈالر اضافے کے ساتھ مثبت ہو گیا ہے۔ آئی ٹی کی برآمدات 27 فیصد اضافے کے ساتھ 298 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جس کے باعث اب آئی ٹی سیکٹر کا حصہ کل برآمدات میں 48 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔غیرملکی سرمایہ کاری کی مد میں رواں مالی سال کے آغازمیں ہی چونسٹھ فیصد اضافے کے ساتھ 350 ملین ڈالر موصول ہونا معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زراگست 2023ء کے مقابلے میں 2.09 بلین ڈالر سے بڑھ کر اگست 2024ء میں 2.94 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ یہ اعداد و شمار اچھے ہیں لیکن اصلاحات کا مطلب مسائل کا پائیدار حل ہے۔ ہر وقت قرضوں پر انحصار وقتی فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اب ہمیں اس وقتی فائدے سے نکل کر نسلوں کی بہتری کی ذمہ داری نبھانی ہے۔ کاش کہ سیاسی قیادت واضح سوچ اور الفاظ کے ساتھ پیغام قوم کے سامنے رکھے، کاش سیاسی قیادت حقائق قوم کے سامنے رکھے اور نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کرے، ہمیں دنیا میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے صاف گوئی کے کلچر کو فروغ دینا ہے۔ نوجوانوں کو اعتماد دینا ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں کی بھی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ہنگامے، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور غیر ضروری احتجاج کے بجائے امن و سکون کے ماحول کو فروغ دیں۔ قوم خود جائزہ لے کہ احتجاج سے کیا حاصل ہوا ہے اور مناسب استحکام سے کیا ملا ہے۔ اسی تناظر میں افواج پاکستان کے سربراہ کا بیان حوصلہ افزا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کہتے ہیں کہ پاک فوج غیر قانونی سرگرمیوں کیخلاف کارروائیوں کے لیے پْرعزم ہے۔ پاکستان کے روشن مستقبل پر سب کو غیر متزلزل اعتماد ہونا چاہیے۔
ایک سال پہلے آپ لوگوں کو کہا تھا مایوس مت ہوں،مایوسی گناہ ہے، معاشرے میں مایوسی پیدا کرنے کی کوششوں کو اجتماعی کاوشوں سے شکست دی۔ پاکستان کی خوشحالی کے لیے کبھی امید نہیں چھوڑنا۔ پاکستان مختلف شعبوں میں غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے، پاکستان اپنے وسائل اور صلاحیت پر اقوام عالم میں جائز مقام لینا چاہتا ہے، دوست ممالک بالخصوص چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا معاشی بحالی میں کردار قابل ستائش ہے۔ کاروباری برادری کے تعاون کے بغیر یہ کامیابیاں ممکن نہ تھیں۔ مغربی سرحد پر سمگلنگ کنٹرول کرنے کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوئے، گوگل ، اسٹار لنک اور دیگر بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، کراچی کی کاروباری برادری کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوں گے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ ملاقات میں شریک تاجروں نے بتایا کہ آرمی چیف نے کہا کہ تاجر بیرون ملک میں رکھا پیسہ واپس لیکر آئیں، آئندہ سال شرح سود سنگل" ڈیجٹ"میں لانے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی "خوشخبری" دیدی ہے۔ تاجروں نے آرمی چیف کو مشورہ دیا کہ ہمیں باہر رکھا پیسہ واپس لانے کیلئے"ایمنسٹی" سکیم دی جائے ،آرمی چیف نے کہا تاجر اور صنعتکار ملک میں نئی انڈسٹری لگانے کیلئے تیار ہو جائیں۔
آرمی چیف کی تاجروں سے ملاقات بارے مختلف حلقے مختلف رائے رکھتے ہوں گے لیکن میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ ملکی بہتری کے لیے، ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے کے لیے وزیراعظم ہوں، چیف جسٹس آف پاکستان ہوں ، افواج پاکستان کے سربراہ ہوں یا مذہبی قیادت، یا نظریں سیاسی قیادت کی طرف ہوں سب کو اپنے اپنے ذاتی خیالات و مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب کی کوششوں کا مقصد ملک کی بہتری ہے تو سب الگ الگ کیوں کام کریں مشترکہ لائحہ عمل بناتے ہوئے ایک ہی سمت میں وقت، توانائی اور سرمایہ لگایا جائے تو نتائج زیادہ بہتر ہو سکتے ہیں۔
دوسری طرف مودی سرکار جو کہ پاکستان میں امن و امان کو خراب کرنے کے لیے مختلف راستے اختیار کرتی ہے، کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے لیے طاقت کا استعمال کی جاتی ہے۔ دنیا کو بھارت کا وہ چہرہ دکھانے کی کوششیں ہوتی ہیں جو زمینی حقائق سے متصادم ہیں۔ بھارت انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوتا ہے۔ وہاں ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے زندگی مشکل بن چکی ہے۔ انسانی حقوق ہی خلاف ورزیوں کے باوجود بھارت کا میڈیا بھی جھوٹی کہانیاں دنیا کے سامنے بیان کرتا ہے۔ بھارت میں لیبر فورس کے اعدادوشمار نے متعصب نریندر مودی کے کھوکھلے دعووں کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ بی جے پی کی حکومت میں بے روزگاری اور غربت انتہائی سنگین حد تک پہنچ چکی ہے۔ بھارتی ریاست کیرالہ میں 15 تا 29 سال کی عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 30 فیصد ہے،ریاست کیرالہ میں خواتین میں بے روزگاری کی شرح 47 فیصد اور مردوں میں 19 فیصد ہے۔ پی ایل ایف ایس کے اعداد و شمار کے مطابق مودی کے بڑے بڑے دعووں کے باوجود سال 2023 اور 24 میں بے روزگاری کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی جبکہ مجموعی طور پر بے روزگاری کی شرح 2.9 فیصد سے بڑھ کر 3.2 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر ، ناگالینڈ، منی پور اور اروناچل پردیش میں بھی نوجوانوں کی بے روزگاری کی بلند شرح ریکارڈ کی گئی، اس سے قبل انڈیا ایمپلائمنٹ رپورٹ کے مطابق بھارت کی بے روزگار عوام کا 83 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
بے روزگاری اور مودی سرکار کی بے حسی سے تنگ آکر پڑھے لکھے نوجوان معمولی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ تحقیق کے مطابق بھارت میں بے روزگاری کے باعث تقریباً ستر فیصد تعمیراتی مزدور کم سے کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ بے روزگاری سے تنگ بھارتی شہری غیر قانونی طور پر امریکہ اور برطانیہ منتقل ہونے پر مجبور ہو رہے ہیں جبکہ بڑھتی بیروزگاری سے انسانی سمگلنگ بھی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ نریندرا مودی کو اگر پاکستان مخالف طاقتوں کی حمایت، تعاون سے وقت ملے تو انہیں چاہیے کہ اپنے ملک کے کروڑوں نوجوانوں کے بہتر مستقبل کی طرف بھی توجہ دیں۔
شان الحق حقی
تم سے الفت کے تقاضے نہ نبائے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب
زخم بھی دل نہ ہوتا تو کراہے جاتے
لذت درد سے آسودہ کہاں دل والے
ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے
کاش اے ابر بہاریٖ! تیرے بہکے سے قدم
میری امید کے صحرا میں بھی گاہے جاتے
ہم بھی کیوں دہر کی رفتار سے ہوتے پامال
ہم بھی ہر لغزش مستی کو سراہے جاتے
ہاہے تیرے فتنہ رفتار کا شہرہ کیا کیا
گرچہ دیکھا نہ کسی نے سرراہے جاتے
ہم نگاہی کی ہمیں خود بھی کہاں تھی توفیق
کم نگاہی کیلئے عذر نہ چاہے جاتے
دی نہ مہلت ہمیں ہستی نے وفا کی ورنہ
اور کچھ دن غم ہستی سے نبائے جاتے
سیاسی قیادت کی کوشش، آرمی چیف کا عزم اور متعصب نریندرا مودی کے ملک میں بے روزگاری!!!!!!
Sep 29, 2024