یونیفیکیشن بلاک کی قانونی پوزیشن.... شکوہ، جواب شکوہ.

مکرمی! قومی اخبار نوائے وقت کی کبھی بھی یہ پالیسی نہیں رہی کہ اس نے کسی ایک جماعت کو باقی جماعتوں کے خلاف باقاعدہ اُکسایا ہو، وہ بھی محض سیاسی مقصد کیلئے؟ میں نوائے وقت کے مورخہ27اپریل2011ءکے اداریہ کی سرخی پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
”مسلم لیگ(ن) اب یونیفیکیشن بلاک کو اعلانیہ ساتھ ملا لے“
عرض ہے کہ مسلم لیگ (ن) یونیفیکیشن بلاک کو باقاعدہ ملا چکی ہے، اگر یونیفیکیشن بلاک جسے لوٹا بلاک کی شہرت حاصل ہے کو وہ آئینی و قانونی اعتبار سے اپنا حصہ بنا سکتی ہوتی تو وہ ذرا دیر نہ لگاتی، کیونکہ اس وقت جو قانون موجود ہے اس کے مطابق کوئی رکن اپنی پارلیمانی جماعت کے فیصلے کے برعکس سپیکر کے انتخاب، وزیر اعلیٰ کے انتخاب اور منی بل کو ووٹ نہیں دے سکتا، الیکشن کمیشن میں جن 9 ارکان کے خلاف نااہلی کے ریفرنس زیر سماعت ہیں، وہاں مذکورہ ارکان کے وکلاءکہہ رہے ہیں کہ ہمارے موکلین نے پارٹی تبدیل نہیں کی حالانکہ انہوں نے غیر قانونی طور پر پارٹی بدل لی ہے مگر قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے وہ اس کا تحریری اعتراف نہیں کر سکتے۔ ہمیں بے حد افسوس ہے کہ نوائے وقت کے مرکزی اداریہ میں غیر قانونی اقدام کی کھلے عام دعوت دی گئی ہے، وہ بھی ایک ایسی جماعت کو جو 2008ءکے عام انتخابات کے نتائج کے مطابق پوری طرح پنجاب کے عوام کی بھی نمائندہ نہیں اور نہ ہی اس جماعت کی دیگر صوبوں میں نمائندگی ہے۔
(محمد اکرم چودھری، ترجمان مسلم لیگ(ق) پنجاب)
(ضروری نوٹ )محمد اکرم چودھری صاحب نے
مسلم لیگ (ق) پنجاب کے ترجمان کی حیثیت سے نوائے وقت کے متذکرہ اداریے کے حوالے سے قطعی بے جا اعتراض اٹھایا ہے کیونکہ اداریے میں فلور کراسنگ کے مروجہ قانون کی روشنی میں ہی مسلم لیگ (ق) یونیفیکیشن بلاک کی قانونی پوزیشن پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ محمد اکرم چودھری اگر آئین اور قانون سے زیادہ آگاہی نہیں رکھتے تو انہیں کم از کم اپنی پارٹی میں موجود ایس ایم ظفر جیسے آئینی ماہرین سے ہی مشاورت کر لینی چاہئے تھی۔ حقیقت یہی ہے کہ فلور کراسنگ کے مروجہ قانون کے تحت پارلیمانی لیڈر کو اپنی پارٹی کے کسی رکن کی وفاداری تبدیل کرنے‘ فلور آف دی ہاﺅس میں اپنی پارٹی کے فیصلہ کے برعکس ووٹ ڈالنے یا رائے دینے پر اس کے خلاف نااہلیت کا ریفرنس متعلقہ اسمبلی، سپیکر کو بھجوانے کا اختیار حاصل ہے تاہم یہ اختیار صرف متعلقہ رکن اسمبلی کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے، پوری پارلیمانی پارٹی کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا، جبکہ پارلیمانی پارٹی وہی ہوتی ہے جس کے پاس اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی کی اکثریت موجود ہو اور چونکہ مسلم لیگ (ق) کے یونیفیکیشن بلاک کو مسلم لیگ (ق) کے دوسرے ارکان اسمبلی پر عددی برتری حاصل ہے، اس لئے قانوناً یونیفیکیشن بلاک ہی پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی ہے اور مسلم لیگ (ق) کا کوئی رکن اسمبلی اس پارلیمانی پارٹی کے کسی فیصلہ سے انحراف کرتا ہے جیساکہ مسلم لیگ (ق) کے اقلیتی گروپ کی
جانب سے پیپلز پارٹی کا ساتھ دے کر کیا جا رہا ہے تو وہ ضرور فلور کراسنگ کے قانون کی زد میں آئے گا۔ چنانچہ یونیفیکیشن بلاک کی اس قانونی پوزیشن کے نوائے وقت کے متعلقہ اداریہ میں تذکرے پر محمد اکرم چودھری کا چیں بجبیں ہونا بے معنی ہے، جہاں تک 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت پارٹی سربراہ کے پارٹی فیصلوں سے انحراف پر اپنی پارٹی کے کسی رکن کو نااہل قرار دلانے کے اختیار کا تعلق ہے وہ موجودہ ہاﺅس میں بروئے کار ہی نہیںلایا جا سکتا کیونکہ اس اختیار کا اطلاق آنے والی اسمبلی کے ارکان پر ہونا ہے۔ محمد اکرم چودھری صاحب کو خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ ”نوائے وقت“ نے اپنی متعینہ پالیسی اور اصولوں سے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے سیاستدانوں کی طرح کبھی انحراف نہیں کیا۔ چنانچہ نوائے وقت کے اداریہ میں کسی آئینی اور قانونی پوزیشن کی وضاحت سے یہ مراد نہیں کہ اس کے ذریعے کسی مخصوص پارٹی کے موقف کی حمایت کی گئی ہے۔ (ڈپٹی ایڈیٹر، نوائے وقت)

ای پیپر دی نیشن