خون آشام انتخابی مہم،ذمہ دار کون؟

خود کش حملوں ، بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات سے انتخابی مہم خون آلود ہوگئی ۔ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاستدانوں ، ان کے جلسوں اور کارکنوں پر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث پورے ملک میں عمومی اور کراچی، بلوچستان اور خیبر پی کے ، کے اکثر علاقوں میں خصوصی طور پر دہشت اور خوف کی فضا پائی جاتی ہے۔ ویسے تو کوئی بھی قابل ذکر پارٹی ایسی نہیں جو انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی سے محفوظ رہی ہو ۔جماعت اسلامی کے دفاتر پر کراچی اور سبی میں حملے ہوئے۔ گوجر خان میںتحریک انصاف کے عہدیدار سمیت دوافراد فائرنگ کے واقعہ میں مارے گئے۔مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر ثناءاللہ زہری کے قافلے پر حملہ میں ان کا بیٹا ،بھائی بھتیجااور محافظ جاں بحق ہو چکے ہیں۔اب تک کے سامنے آنے والے واقعات سے یہ نظر آتا ہے کہ شدت پسندوں نے اے این پی ، ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ٹارگٹ کر رکھا ہے۔اے این پی پر خیبر پی کے اور کراچی میں تابڑ توڑ حملے ہو رہے اب تک سب سے زیادہ اسی پر حملے ہوئے ہیں۔26اپریل کو کراچی مومن آباد میں جلسہ سے قبل بم دھماکے میں 12 افرادجاں بحق اور 50زخمی ہو گئے تھے۔ ایک روز قبل کراچی میں ہی ایم کیو ایم کے دفتر پر حملے میں سات جانیں چلی گئیں۔ہفتہ 27اپریل کی رات کو کراچی میں متحدہ اور پیپلز پارٹی کے دفاتر کے قریب دھماکوں میں پانچ ہلاکتیں ہوئیں اور 75زخمی ہوئے۔ 28اپریل کو تو بیک وقت تین صوبے لرز گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم اور اے این پی آج دہشت گردی کا ٹارگٹ ہونے سبب In the line of fire ہیں۔یہ پارٹیاںپانچ سال اقتدار میں اتحادی تھیں۔ شدت پسند ان پارٹیوں کو انتخابی مہم میں ٹارگٹ کرنے کی وارننگ دے چکے تھے۔ایم کیوایم نے تو ایک مرتبہ انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ بھی کیا لیکن اب وہ یقین ظاہر کررہے ہیں کہ ہر صور ت الیکشن میں حصہ لیں گے۔ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ جانی نقصان سے دوچار ہونیوالی اے این پی ہے جس کے پاﺅں میں بڑی سے بڑی واردات بعد بھی لغزش نہیں آئی۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شکوہ کنا ں ہیں کہ صرف ان کو ہی ٹارگٹ کیوں جاتا ہے؟ ن لیگ ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی ایسی کارروائیوں سے محفوظ ہے۔ دعا کرنی چاہئے کہ جس طرح موخرالذکر پارٹیاں دہشت گردی سے محفوظ ہیں اسی طرح ہر پارٹی اور پاکستانی محفوظ ہو۔آج آنسو بہانے والی پارٹیاں وہی کاٹ رہی ہیں جو انہوں نے بویا تھا۔اپنے اوپر ہونے والی دہشت گردی کی یہ خود ذمہ دار ہیں۔ان کو اقتدار کیا ملا آنکھوں پر چربی چڑھ گئی۔شیشے کے محل میں بیٹھ کر دشمن پر پتھر برسائیں گے تو وہ موقع ملنے پر آپ کے شیش محل کو چکنا چور کیوں نہیں کرے گا۔دشمن پرسنگ باری کرنی ہے تو اس کی طرف سے گولہ باری کی توقع رکھو۔خود شیش محل میں نہیں ناقابل تسخیر قلعوں میں بیٹھو۔انہوں کے دشمن پر سنگ باری تو کی لیکن اپنے لئے قلعہ کی تعمیر ادھوری چھوڑدی جس پر آج گولہ باری ہورہی ہے۔جس قلعہ کی تعمیر کل کے اتحادیوں نے ادھوری چھوڑی وہ NACTAٰ یعنی نیشنل کاﺅنٹرٹیریزم اتھارٹی ہے۔اس کو فعال بنایا ہوتا تو نہ صرف یہ جماعتیں خود بلکہ ہر پاکستانی دہشتگردی اور دہشت گردوں سے محفوظ ہوتا۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق پانچ سال کے دوران پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کے اتحاد کی حکومت میں ملک کو دہشت گردی کی بدترین قسم کا سامنا رہا لیکن نیشنل کاو¿نٹر ٹیررازم اتھارٹی کو کام کرنے نہیں دیا گیا۔ اسے ناپسندیدہ بیوروکریٹس یا پھر سیاسی بھرتیوں کی آماجگاہ بنا دیا گیا۔ وزارت داخلہ نے ناکٹا حکام کو بتائے بغیر کم از کم 40 افراد کو اس ادارے میں بھرتی کردیا۔ ادارے کے چیفس کو نہیں بتایا گیا کہ ناکٹا میں کس طرح کی بھرتیاں کی جا رہی ہیں۔ ایک ماہ بعد انہیں بتایا گیا ۔ادارے نے ان افراد کو تلاش کیا تو پتہ چلا کہ یہ لوگ اپنے گھروں پر تنخواہیں وصول کر رہے تھے۔ 2008ءمیں ناکٹا کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت قائم کیا گیا تھا جو دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑنیوالی ایجنسیوں کےساتھ رابطہ کاری کے تحت مل کر کام کرتا۔جس معاونت یا کو آرڈی نیشن کیلئے یہ ادارہ قائم ہواوہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیاجس کا اندازہ بی بی بی سی کی گزشتہ سال کی اس رپورٹ سے بخوبی لگایا جا سکتاہے جس میں کہا کیا تھا کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کی وارداتوں کے سدباب کیلئے بنائی جانیوالی قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی نے وفاقی حکومت سے اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں اور سویلین اور فوجی خفیہ اداروں کی طرف سے عدم تعاون کی شکایت کرتے ہوئے کہاہے کہ ایسی صورتحال میں اسے دہشت گردی کی روک تھام کیلئے کارآمد پالیسیاں بنانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انسداد دہشت گردی اتھارٹی کے حکام نے ایسی صورتحال میں اتھارٹی کے قائم رہنے کو قومی دولت ضیاع قرار دیتے ہوئے اس ادارے کو ختم کرنے یا کسی دوسرے ادارے میں ضم کرنے کی طرف بھی اشارہ کیا۔ چاروں صوبوں کے ہوم ڈیپارٹمنٹ اور دیگر خفیہ اداروں کی طرف سے عدم تعاون کے بارے میں اتھارٹی کے حکام کا موقف ہے کہ گزشتہ برس کراچی میں نیوی کی مہران بیس پر حملوں سے لیکر صوبہ خیبر پی کے کے شہر بنوں کی جیل پر شدت پسندوں کا دھاوا اور خیبر ایجنسی اور دیگر علاقوں میں خودکش حملوں اور سکیورٹی فورسز پر حملوں سے متعلق بھی پیشگی کوئی رپورٹ حکام کو نہیں دی گئی۔اگر کبھی کبھار خفیہ اداروں کی طرف سے کوئی اطلاع اتھارٹی کو ملتی بھی ہے تو اسے ایسے عام کر کے پیش کیا جاتا ہے کہ فلاں شہر میں اتنے شدت پسند کارروائی کیلئے داخل ہوگئے ہیں جبکہ اس بارے میں کوئی مخصوص اطلاع نہیں دی جاتی کہ ان افراد کو اس شہر میں کس کی پشت پناہی حاصل ہوگی؟قوم کو یاد ہے کہ سپریم کورٹ نے ان جماعتوں کو کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث قرار دیا۔ ان جماعتوں پر الزام تھا کہ ان کے مسلح ونگ ہیں۔ کراچی اور ملک کے دیگر حصوں بشمول خیبر پی کے میں ہونیوالی دہشت گرد کارروائیوں اور حملوں کی تعداد انہی تین جماعتوں کے حکومت میں ہوتے ہوئے بہت زیادہ تھی۔ آ ج پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو جس ہولناک دہشت گردی کا سامنا ہے اس کی وہ خود ہی ذمہ دار ہیں لیکن کوئی بھی ذی شعور یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ جماعتیں دہشت گردی کی آگ میں یونہی جلتی رہیں اس کاکوئی سدباب اور تدارک کرنا ہوگا۔شدت پسندوں کا مقصد ان پارٹیوں کو انتخابات سے باہر رکھناہے تو کسی پارٹی کی طرف سے بائیکاٹ یا التوا کی صورت میں انکا مقصد پورا ہو جائے گا۔اب پوری قوم کوتمام سیاسی جماعتوں سمیت متحد ہونا ہوگا۔دہشت گردی کی یہ آگ کسی کو بھی بھسم کرسکتی ہے۔نگران حکوت اس پر توجہ دے اور اس کا نشانہ بننے والی پارٹیاں پوری ذمہ داری حکومت پر ڈالنے کی بجائے احتیاط سے کام لیں اور اپنی حفاظت خود بھی کریں۔علم الاعداد اور ستاروں کی روشنی میں الیکشن کی ریس میں اگرچہ مسلم لیگ (ن) فیورٹ ہے لیکن تحریک انصاف اس ریس کو اپ سیٹ کرسکتی ہے۔ گویا تحریک انصاف ڈارک ہارس ہے۔

ای پیپر دی نیشن