پندرہ بیس برس سے کالم نگاری تو ہم سب کر رہے ہیں مگر بقول ہمارے چند قریبی احباب کے ہم محض ”جھک“ مار رہے ہیں۔ اوّل تو ہم ایسوں کو کوئی ”کالم نگار“ مانتا ہی نہیں۔ اور سیدھا سیدھا اپنے دل کی بات یا ضمیر کی بات لکھتے رہنابھلا کہاں کی کالم نگاری ہے ۔جب تک کسی خاص ”لابی“ سے وابستہ نہیں ہوتے۔ سیاست سے ہمیں کوئی خاص لگاﺅ بھی نہیں اب ہم قانون انصاف اور میرٹ کی حکومت کے خواہاں ضرور ہیں اور اردگردکی نامرادیوں پر کڑھتے رہنا شاید ہمارا نصیب ہے جبکہ بقول شخصے سیاست پر خاطر فرمائی کے لیے سیاستدانوں سے لے کر بیورو کریٹس تک تعلقات بنائے بغیر آپ کوئی ”دلچسپ“ اور مقبول کالم نہیں لکھ سکتے .... اب ہلکے پھلکے انداز میں یا ہنستے ہنستے کسی کی چٹکی لینے کاہنر بھی ہمارے پاس نہیں کہ ہمارا کالم کسی فن پارے کا درجہ قرار پا سکے....ہم تو ٹھہرے عام آدمی.... اور عام آدمی کا یہاں کوئی پرسان حال نہیں ۔دوستوں کی شکایت بجا ہے ابھی ہماری ہی شناخت کا سفر باقی ہے ....کہ ابھی تک کسی خفیہ فنڈز کی فہرست میں ہمارا نام نہیں۔ کسی وزیراعظم، وزیراعلیٰ نے اپنے دورے پر بھی ہمیں کبھی ”صلح“ نہیں ماری ....کسی سیاسی پارٹی یا سیاستدان کی طرف سے کوئی منتھلی بھی نہیں لگی ....نہ ہی.... کبھی کوئی سرکاری عمرے یا سرکاری حج کی آفر ہوئی ہے۔ دوست درست کہتے ہیں کہ ہم کہا ں کے کالم نگار ہیں؟؟ ہمیں کوئی سیاسی ورکرتک نہیں پہچانتا کہ ہمارے کالم میں کبھی کسی اسمبلی کے رکن وزیر مشیر یا بیورو کریٹ کا نام بھی نہیں آتا....حالانکہ کالم نگاری کو چار چاند لگانے کے لیے ہر روز آٹھ دس ایسے فعال افراد کے اسمائے گرامی کالم کا حصہ بنانے سے کالم مزید” مقوی“ ہو سکتا ہے ....سو ہمارے پاس کاش کے سوا کچھ نہیں۔ کاش ہم بھی بہت”اچھے“ کالم نگار قرار پاتے....ہمارا کالم زرداری نہیں تو کم از کم نگران وزیر اعظم ہی پڑھ کر ہمیں ملاقات کا شرف بخشتے۔ ہم کھلم کھلا کسی سیاست دان کے خلاف لکھنے کی بھی جرا¿ت نہیں رکھتے ۔ کاش ہم بھی وسیع تر ہواﺅں اور فضاﺅں میں اُڑان بھرنے کے تمنائی کی طرح خوبصورت نثر لکھ سکتے اور اس نثر سے ہر روز عمران خان کے لتے لے سکتے ....یا پھر رجل الرشید کی انشا پردازی سے عمران خان کو متاثر کر لیتے ....ہم تو سبھی چوٹی کے لیڈروں سمیت نوازشریف اور عمران خان کی محبتوں سے بھی محروم ہیں۔ سو ایک ناکام کالم نگار کی حیثیت سے پی آر کی چھاﺅں سے اور اپنی ناکامی میں منہ چھپائے مست ہیں۔ اپنے دوستوں سے ہار ماننے کے بعد سب یہی کہہ کر بات ختم کرتے ہیں کہ پہلے ہماری کسی سیاسی پارٹی لیڈر یا اہم عہدیدار تک رسائی نہیں۔ بھلے ہمیں عید بھر عید پر عیدیاں، یا موسمی پھلوں جیسے الگ ماہانہ تحفے تحائف نصیب نہیں....رہی ہمارے لکھے کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہمیں اندر کا” اطمینان “ ضرور حاصل ہے ۔ تو ہم عوام کے ساتھ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ برداشت کرتے ہوئے خجل خراب ہو رہے ہیں۔ مگر ہم صرف اور صرف عوام کیلئے ترجمانی کرتے ہیں۔ ہم ذاتی مفادات، مراعات کے لیے عوام کا کاندھا استعمال کر کے اپنے مخالفین یا حامیوں کو بھاشن نہیں دیتے....ہم جو محسوس کرتے ہیںلکھتے ہیں۔ ہمیں اوپر سے احکامات وصولی کر کے لکھنے کی عادت بھی نہیں ہے اور نہ ہی قصیدہ خوانی ہماری سرشت میں شامل ہے۔ ویسے بھی ہم تو ابھی لکھنے کی ”اپرنٹس شپ“ کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ کاش ہمارے لفظوں کو بھی تاثیر نصیب ہو جائے اور کوئی ایک کالم ایسا لکھا جائے کہ جسے واقعی کالم قرار دیا جا سکے۔ یا پھر شاید بقول حیدر دہلوی:ابھی ماحول عرفان ہنر میںپست ہے حیدریکا یک سر بلند آواز پہچانی نہیں جاتی
ہم ناکام ....کالم نگار
Apr 30, 2013