قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ، ان پر کیے جانے والے اعتراضات اور ریٹرننگ افسروں اور الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کیخلاف اپیلوں کی سماعت کے بعد انتخابی امیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری ہوچکی ہیں۔ کئی امیدواروں کو اہل اور کئی کو نا اہل قراردے دیا گیا ہے۔ نا اہل قرارپانے والوں میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز اشرف کا نام سر فہرست ہے جبکہ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور سابق وفاقی وزیر چوہدری وجاہت حسین کو ہائی کورٹ کے ایک فل بینچ نے انتخابات میں حصہ لینے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ اسی طرح میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف ، عمران خان ، چوہدری نثار علی خان اور جاوید ہاشمی کے خلاف دائر اپیلوں کو مسترد کر کے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اہل قرار دے دیا گیا ہے۔
یہ سب فیصلے اور اقدامات یقینا انتخابی عمل اور شیڈول کے معمول کا ایک حصہ ہیں۔ لیکن ان سے بڑھ کر بھی کچھ فیصلے سامنے آئے ہیں۔ جنہیں عام انتخابی معمول کا حصہ قرار دینا شائد اتنا آسان نہیں ہوگا۔ جعلی ڈگری کیسز میں سزا یافتہ سابق ممبر قومی اسمبلی جمشید دستی ، سابق وزیر خیبر پختونخواہ میاں عاقل شاہ اور سابق وزیر بلوچستان میر ہمایوں کرد کی سزائیں کالعدم ہی نہیں قرار دی گئیں بلکہ انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ اسی طرح سابق وفاقی وزیر تعلیم شیخ وقاص اکرم کا معاملہ بھی ہے کہ جنکی تعلیمی اسناد کو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جعلی قراردے رکھا ہے۔ لیکن انکے کاغذات نامزدگی بھی منظور کرلیے گئے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ اس نادر شاہی فیصلے کہ الیکشن ٹربیونلز میں دائر جن اپیلوں کی سماعت 17اپریل مقررہ وقت تک نہیں ہوسکی انہیں بھی مسترد گردانا جائے گا پر بھی عمل درآمد ہوچکا ہے۔ غرضیکہ انتخابات کے حوالے سے بعض ایسے فیصلے اور ایسے اقدامات سامنے آئے ہیں کہ انکی بناءپر عوام مزید مایوسی ، ناامیدی ، بددلی اور کنفیوژن کا شکار ہوئے ہیں اور انتخابات کے عمل کے بارے میں طرح طرح کی چہ میگویاں ہونے لگی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مئی 2013کے انتخابات کے انعقاد کے اعلان سے قبل ہی مختلف حلقوں کی طرف سے اس طرح کے دعوے سامنے آنا شروع ہوگئے تھے کہ انتخابی امیدواروں کی اہلیت اور نا اہلیت جانچنے کیلئے آئین کی متعلقہ دفعات پر پورا عمل کیا جائیگا۔ اور ایسا کڑا احتسابی نظام وجود میں لایا جائے گا کہ کوئی بدعنوان ، بدیانت اور قومی دولت کو لوٹنے والا انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ انتخابی امیدواروں کیلئے آئین کی دفعات 63-62پر پورا اترنا لازمی ہونا چاہئے ۔ عمران خان کی تحریک انصاف کے سونامی کی اٹھان ہی قومی دولت کو لوٹنے والوں کا کڑا احتساب کرنے کے نعرے سے ہوئی تھی۔
ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کینڈا سے تشریف لائے تو دھرنے کے بعداسلام آباد میں حکمران اتحاد کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں طے پاجانے والے ”اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن“ میں بھی انہوں نے انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتال کیلئے ایک ماہ کا عرصہ رکھنے کی شرط منظور کروالی۔ ان ساری باتوں سے عوام میں یہ امید پیدا ہوئی کہ انتخابی امیدواروں کی اہلیت نا اہلیت جانچنے کیلئے کڑے ضابطوں پر عمل کیا جائیگا۔ لیکن عملاً ایسا نہیں ہوسکا بلکہ انتخابات کے انعقاد کی 11مئی کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے بارے میں عوام کے تحفظات ، خدشات اور شکوک و شبہات میں کوئی زیادہ کمی نہیں آئی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی آئین کی دفعات 63-62کے تحت اہلیت اور نا اہلیت جانچنے اور بدعنوان، بد دیانت ، لوٹ مار، کرپشن اور اخلاقی عیوب میں ملوث اور جعلی ڈگری ہولڈرز اور قومی دولت کو لوٹنے والوں اور بنکوں کے قرضے معاف کروانے والوں کو انتخابات میں شریک ہونے سے روکنے کیلئے کوئی موثر اقدامات نہیں کیے جاسکے ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم قومی زندگی میں کئی طرح کے تضادات کا شکار ہیں ہم بلند بانگ دعوے کرنے اور کھوکھلے نعرے لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ ہمارے سیاستدان اور سیاسی رہنما جھوٹے سچے اعلانات کر کے عوام کو بیوقوف ہی نہیں بناتے بلکہ ایک دوسرے کیخلاف سخت بیانات دینے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے ۔ لیکن جب کوئی باہمی مفاد کی بات ہوتی ہے یا کسی کوتاہی یا بدعنوانی کی زد ان پر پڑنے لگتی ہے تو آپس میں ایک ہوجاتے ہیں۔ انتخابات کے ضمن میں اس وقت تک کی پیش رفت اسکا بین ثبوت ہے۔ بنک ڈیفالٹرز اور بنکوں کے قرضے معاف کروانے والوں کے حوالے سے بڑا واویلا تھا کہ انکے انتخابات میں حصہ لینے کو روکا جائیگا۔ اسی طرح اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا بڑا تذکرہ ہوتا رہا کہ جن لوگوں نے آئی ایس آئی سے رقوم لیں انکے خلاف مقدمات قائم کر کے انہیں انتخابات میں شریک ہونے سے روکا جائیگا لیکن یہ سب باتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔
سیاستدانوں ، سیاسی رہنماﺅں اور سیاسی جماعتوں کی اس طرح کی کہ مکرنیاں اپنی جگہ ہمارے موقر آئینی اداروں سے تعلق رکھنے والے معزز اور قابل قدر اصحاب کو بھی ہیرو اور چمپین بننے کا شوق کچھ زیادہ ہی چرانے لگا ہے۔ ملک میں آزادانہ ،منصفانہ ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ کیا الیکشن کمیشن اس اہم ذمہ داری کو صحیح معنوں میں پورا کر رہا ہے یقینا ایسا نہیں ۔ الیکشن کمیشن کا پھس پھسااور غیر سنجیدہ رویہ اور بعض فیصلوں کا اعلان کر کے ان سے پیچھے ہٹ جانا ایک ایسا پہلو ہے کہ جسکی وجہ سے انتخابات کے پورے عمل کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات اور خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ یہاں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں الیکشن کمیشن نے ڈگریوں کی تصدیق کروانے کیلئے سابق پارلیمنٹ کے ارکان کو 15دن کی ڈیڈ لائن دی مگر جب سیاست دانوں نے آگے سے دباﺅ ڈالا تو الیکشن کمیشن معافی مانگنے پر تیار ہوگیا۔ اسی طرح اور کئی معاملات میں بھی الیکشن کمیشن بری طرح پسپائی اختیار کرچکا ہے۔ یقینا الیکشن کمیشن کے اس انداز فکر وعمل سے بہت ساری الجھنیں پیدا ہوئی ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے معزز اور فاضل ارکان کے بعض فیصلوں بالخصوص مقدمات کی سماعت کے دوران دیے جانے والے ریمارکس کا حوالہ دیا جائے کہ ان سے کیا کیا الجھنیں اور غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں اور الیکشن کمیشن کے معاملات اور کارکردگی پر کیا منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ لیکن خلق خدا کے خوف اور کالے کوٹوں میں ملبوس محترم وکلا حضرات جو بذات خود ایک مافیا کا روپ دھار چکے ہیںکے ڈر سے ایسا کرنا آسان نہیں۔پھر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بعض بڑے نام بھی ایسے ہیں کہ وہ اپنی تحریروں ، تجزیوں ، کالموں اور ٹاک شوز میں قومی معاملات ومسائل کو جس طرح اپنی پسند کے پہلو دکھا رہے ہیں ان سے بھی قوم میں بے یقینی اور کنفیوژن کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ غرضیکہ ساری صورت حال کو دیکھ کر یہ شعر دہرانے کو جی چاہتا ہے....
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خون نکلا