ایک کالم نگار نے کہا ہے کہ الیکشن مضحکہ خیز ہیں۔ جیسے وکٹوں کے بغیر کرکٹ میچ ہو رہا ہے تو پھر عمران خان وکٹیں کیسے اڑائے گا۔ اس کا انتخابی نشان بلا ہے۔ کرکٹ کھیلنے کا شوقین نواز شریف بھی ہے۔ وہ ان باﺅلر کا عادی ہے جو ایسی گیندیں پھینکتے ہیں کہ جن پر رنز بنائے جا سکیں۔ کرکٹ میچ ہی ہونا ہے تو وہ اصلی ہو مزا آئے گا۔ کیسا معنی خیز نعرہ ہے؟ اوپر اللہ نیچے بلا۔ بس اللہ ہی اللہ۔ دولت اللہ دیتا ہے مگر انتخابی اور سیاسی دوست کون دیتا ہے۔ یہ دولت ہر سیاستدان کے پاس ہے۔ لوٹنے کے لئے لٹانے کا وقت یہی ہے۔ عمران نے کہا کہ میں پولیس کو بھی بدل دوں گا۔ وہ ہر شے کو تبدیل کرنے کی جلدی میں ہے۔ جلد بازی اچھی نہیں ہوتی۔ وہ جلدی میں یہ بھی کہہ گیا ہے کہ میں پولیس کو اس طرح بدلوں گا کہ اسے موٹر وے پولیس بنا دوں گا۔ انہیں یاد نہیں رہا کہ موٹر وے نواز شریف نے بنائی تھی۔ انہیں خوشامدیوں نے پاکستان کا شیر شاہ سوری کہا تھا تو انہوں نے پوچھا کہ یہ شیر شاہ سوری کون تھا۔ بتایا گیا کہ اس نے اپنے زمانے میں جی ٹی روڈ بنوائی تھی۔ نواز شریف نے بے ساختہ کہا کہ پھر تو اس نے بڑی کمشن بنائی ہو گی۔ اب نواز شریف ہر جگہ موٹر وے بنانے کے اعلان کر رہا ہے۔ میٹرو بس کےلئے 26 کلومیٹر سڑک شہباز شریف نے بنائی ہے مگر نواز شریف کہتے ہیں کہ ہر شہر میں میٹرو بس کے لئے سڑک بنوائیں گے۔ موٹر وے نواز شریف نے بنوائی تھی تو موٹر وے پولیس بھی انہوں نے بنوائی ہو گی۔ مگر اس طرح کی پولیس کوئی سیاستدان نہیں بنوا سکتا۔ انہیں تو پولیس چاہئے جو مشکل وقت میں کام آئے۔ پولیس کے بغیر افسران حکمران اور سیاستدان کچھ بھی نہیں ہیں۔ نہ پروٹوکول نہ سیکورٹی۔ سنا ہے ایک دفعہ موٹر وے پولیس نے اس گاڑی کا بھی چالان کر دیا جس میں نواز شریف بیٹھے ہوئے تھے۔
جوش خطابت میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لئے تقریر کرتے ہوئے شہباز شریف کو بھول گیا کہ انہوں نے اس سے پہلی تقریر میں کیا کہا تھا۔ چاروں تقریروں میں یہ بات بار بار ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی۔ شہباز شریف نے بہت جذبے سے اعلان کیا کہ میں چھ مہینوں میں لوڈشیڈنگ ختم کر دوں گا۔ دوسری تقریر میں انہوں نے فرمایا کہ میں ڈیڑھ سال میں لوڈشیڈنگ ختم کروں گا۔ تیسری تقریر میں انہوں نے کہا کہ میں نے دو سال میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ چوتھی تقریر میں شہباز شریف نے کہا کہ تین سال میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کر سکا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ حکومت کی مدت پانچ سال ہوتی ہے۔ اگر وہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لئے پانچویں تقریر کرتے تو یقیناً پانچ سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کرتے۔ میں وزیر اعلیٰ نہیں بلکہ خادم اعلیٰ ہوں اگر پانچ سال میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کی تو اگلے پانچ سال میں بخیر و خوبی ختم ہو جائیگی۔ یہ اعلان راجہ رینٹل نے بھی کیا تھا کہ دسمبر 2010ءمیں لوڈشیڈنگ ختم ہوجائیگی مگر اسکے بعد بھی وہ پانی و بجلی کے وزیر رہے اور لوڈشیڈنگ بناتے رہے۔ لوڈشیڈنگ بڑھتی گئی اب نگران حکومت میں تو حد ہو گئی ہے۔ کالاباغ ڈیم بنانے کی بجائے انہوں نے ترکی سے رینٹل پاور پلانٹ کرائے پر منگوائے۔ بجلی تو لوگوں کو نہ ملی مگر قوم کے اربوں روپے لگ گئے۔ ان اربوں میں سے اربوں روپے کی ہی کرپشن ہوئی۔ سپریم کورٹ نے راجہ پرویز اشرف پر فرد جرم عائد کر دی اور صدر زرداری نے سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے پر عمل کیا کہ وزیراعظم گیلانی کو چلتا کیا اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے راجہ رینٹل کے ساتھ یہ مہربانی کی کہ انہیں وزیراعظم بنا دیا اور لوگوں کو حیران پریشان کر دیا۔ سپریم کورٹ نے رینٹل پاور پلانٹ کرپشن کے مقدمے میں رینٹل وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم دیا۔ محترمہ مہناز رفیع نے یہ باتیں بڑی دردمندی سے میرے ساتھ ڈسکس کیں۔
خبر ہے کہ جنرل مشرف کا ساتھی بیرسٹر محمد علی سیف تین ارب روپے لے کے بھاگ گیا ہے۔ اسے جنرل مشرف نے نگران وزیر بنایا تھا۔ پھر پارٹی کا لیڈر بنا دیا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ صدر زرداری اور نواز شریف کے پاس تو پیسہ ہے۔ جنرل مشرف کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا جس طرح انتخابی مہم عمران چلا رہا ہے اس کے پاس کہاں سے آیا۔ مشرف کے لئے تو احمد رضا قصوری سے پوچھا جائے۔ عمران کیلئے کس سے پوچھا جائے؟ جہانگیر ترین سے یا شاہ محمود قریشی سے؟
پیپلز پارٹی کی بشریٰ اعتزاز دلچسپ خاتون ہیں۔ اعتزاز احسن سے تو بہت اچھی ہیں۔ وہ جیتنا چاہتی ہیں تو اعتزاز احسن کو اپنی انتخابی مہم سے آﺅٹ کر دیں۔ رن آﺅٹ کریں۔ یہی تو عمر بھر بیچاری بشریٰ اعتزاز نہیں کر سکیں۔ اس الیکشن میں کئی پارٹیوں کے ٹکٹ پر خواتین مردوںکے مقابلے میں اتری ہیں۔ فاٹا کے انتہا پسند علاقے میں بھی ایک بہادر خاتون باقاعدہ الیکشن لڑ رہی ہیں۔ لاہور میں پیپلز پارٹی کی دوسری خاتون ثمینہ گھرکی الیکشن لڑ رہی ہیں۔ یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔ ان کے خاندان کی طرف سے ایک گھرکی ہسپتال بھی اس علاقے میں قائم کیا گیا ہے جس کے ساتھ ایک میڈیکل کالج بھی ہے۔ گھرکی فیملی کے لئے یہاں ایک محبت پائی جاتی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ ثمینہ گھرکی کے مقابلے میں کون الیکشن میں ہے۔ بہرحال ثمینہ گھرکی سے گزارش ہے کہ زکریا بٹ کو اپنی الیکشن مہم میں شریک نہ کرے جس طرح بشریٰ اعتزاز اگر اعتزاز احسن پر کنٹرول حاصل کرلیں تو ان کیلئے بہتر ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے تہمینہ دولتانہ الیکشن میں کھڑی ہیں۔ پچھلی دفعہ وہ ہار گئی تھیں تو نوازشریف نے انہیں عورتوں کی مخصوص نشستوں پر موقع دیا۔ وہ ایک دلیر خاتون ہیں۔ انکی ایک ادائے دلبرانہ نے انہیں نوازشریف کی نظر میں شیرنی بنا دیا۔ جب قومی اسمبلی میں تہمینہ نے صدر فاروق لغاری کی طرف چادر پھینکی تھی، یہ چادر پھر تہمینہ کی بھی حفاظت نہ کرسکی کیونکہ نوازشریف کو اپنی ذاتی مسلم لیگ (ن) میں کوئی دوسرا شیر پسند نہیں ہے۔ شیر بننے کی جرا¿ت تو کسی کو نہیں ہوسکتی اور تہمینہ کو شیرنی کا خطاب خود نوازشریف نے دیا تھا۔
سندھ میں روایتی رومانوی داستانوں کو دہرانے کا کریڈٹ سیاسی عورتوں کو جاتا ہے۔ ماروی ایک تاریخی خاتون تھیں، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ماروی میمن، پیپلز پارٹی کی طرف سے سسی پلیجو میدان میں ہیں۔ سسی تھل کا ایک رومانوی تاریخی کردار ہے مگر اسکے مقابلے میں جو بھی ہو، وہ اپنے آپ کو پنوں سمجھنا شروع کردے تو کون اسے روک سکتا ہے۔ کوئی تیسری خاتون بھی ہے، وہ بھی کوئی تاریخی نام والی خاتون ہے۔
مشرف کے ایک وکیل ابراہیم ستی نے بھری عدالت میں آصف علی زرداری کو آصف علی بھٹو کہہ دیا۔ ابراہیم ستی جانتے ہونگے کہ کچھ عرصہ پہلے تک ہندو عورتیں اپنے خاوندوں کے مرنے پر انکی لاش کے ساتھ ستی ہوجاتی تھیں، جل مرتی تھیں۔ ابراہیم ستی کا ارادہ مشرف صاحب کیلئے کہیں ایسا تو نہیں، مگر انہوں نے بہت ساری فیس بھی لے لی ہوگی۔ یقیناً یہ فیس احمد رضا قصوری سے کم ہوگی۔ خود زرداری صاحب نے اپنے بچوں کیلئے بھٹو کی نسبت کو جوڑ کے رکھا۔ بلاول بھٹو زرداری، وہ اپنے ساتھ بھی یہ نسبت لگائیں۔ بے شک زرداری کے بعد بھٹو رکھ لیں، آصف علی زرداری بھٹو۔
آخر میں مجھے ایک وضاحت کرنا ہے۔ میں نے حفیظ اللہ خان نیازی کے ایک کالم کے حوالے سے لکھ دیا تھا کہ عمران خان نے مشرف سے کروڑوں روپے لئے تھے۔ حفیظ نے مجھے بتایا کہ میں نے ڈاکٹر شیرافگن کے حوالے سے یہ بات لکھی تھی جس میں اس نے الزام لگایا کہ عمران نے مشرف سے کروڑوں روپے لئے تھے ورنہ حفیظ اللہ کے بقول اسے عمران کی دیانت پر پورا بھروسہ ہے۔ یہ ڈاکٹر شیرافگن کی سیاست تھی کہ اس نے یہ الزام لگایا۔ یہ مقدمہ ابھی عدالت میں زیرالتواءہے اور عمران نے ڈاکٹر شیرافگن کے بیٹے کو ٹکٹ دیدیا ہے مگر اس میں امجد خان ملوث نہیں ہے۔
....٭....٭....٭....
انتخابی دولت والے دل کی دولت نہیں رکھتے
Apr 30, 2013