ضمیر کی صحافت کا استعارہ …… ڈاکٹر مجید نظامی

Apr 30, 2014

عبدالمجید منہاس

کچھ شخصیات اپنی زندگی کی ہمہ گیریت کی بناء پر ایک ایسا قومی و عوامی مرتبہ حاصل کر لیتی ہیں کہ ان کی زندگی کو کسی مخصوص خانے میں مقید کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جناب ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کی کرشمہ ساز شخصیت اور قد و قامت کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہے کہ ان کی خدمات کی پہچان صحافت ہے یا پاکستان کی جغرافیائی حدود کی نگہبانی یا استحکام پاکستان کے لئے کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف نام نہاد یا پھر معاشرے کے کم زور‘ بے آواز اور پسے ہوئے طبقوں کے لئے ان کی درد مندی‘ علیٰ ہذا القیاس ان کے قومی فرائض کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر مجید نظامی صاحب خوش قسمت ہیں کہ زندگی میں ہی انہیں ناصرف سرکاری اعزازات سے نوازا گیا بلکہ لاہور کی ایک سڑک لارنس روڈ کا نام بھی شاہراہ مجید نظامی رکھا گیا۔
صحافت کے پتھریلے ریگزاروں میں انہوں نے آمریتوںکے بدترین ادوار میں بھی علم حق بلند رکھا۔ آج کے زرد صحافت کے دور میں مادی فوائد سے قطع نظر طاقتور کے مقابلے میں ہمیشہ کمزور کا ساتھ دینا محترم مجید نظامی صاحب کی پیشہ ورانہ صحافت کا ایک ناقابل تعریف حصہ ہے۔
انسان اپنے فرائض سے ریٹائر ہو جاتے ہیں مگر قومی و سماجی خدمت کا جذبہ کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ مجید نظامی صاحب خوش قسمت ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے طویل العمری سے نوازا ہے کیونکہ قدرت کو منظور تھا کہ ان سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جائے۔ اس بات کا فائدہ پاکستان کے ان کروڑوں غریبوں کو ہوتا ہے جن کی معاشی آزادی کا مقدمہ لڑتے لڑتے مجید نظامی صاحب یہاں تک پہنچے ہیں ان کا طرہ امتیاز ہے کہ انہوں نے نوائے وقت کو کسی دور میں بھی قصر سلطانی کے گنبدکی زینت نہیں بننے دیا بلکہ اسے ہر دور کے حکمرانوں کے خلاف ایک قلبی احتساب ہتھیار بنائے رکھا اور ان کی اس پالیسی کی وجہ سے حاکمان وقت بہت سے معاملات میں مادر پدر آزاد‘ من مانیوں سے باز رہے۔ جب پاکستان میں صحافت کی تاریخ لکھی جائے گی تو ان کا نام سنہری حرفوں میں سرفہرست لکھا جائے گا۔
بانی پاکستان قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا کیونکہ پاکستان کے سارے دریا کشمیر کے سینے پر بہتے ہوئے ہمارے ملک میں داخل ہوتے ہیں اور جو ہماری ملکی خوشحالی کی علامت ہیں۔ کشمیر پر محترم مجید نظامی صاحب کا موقف آج بھی اتنا ہی اٹل ہے جتنا آج سے 67 سال سے پہلے تھا اور یہ اسی محبت کا تقاضا ہے کہ وہ آج 86 سال کی عمر میں بھی کشمیر کے معاملے میں دشمن کے سامنے ایک شمشیر یکف مجاہد کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں ایسے ہی لوگوں کے دم قدم سے پاکستان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم ہے۔ مجید نظامی صاحب کی شخصیت پاکستان کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ انہوں نے گذشتہ پون صدی کے طویل عرصے میں صحافت اور سماجی خدمت کو نئے مفہوم سے آشنا کیا ہے۔ اللہ رب العزت دعا ہے کہ وہ ہمارے سروں پر ان کا سایہ قائم رکھے۔

مزیدخبریں