وزیر اعظم کو پٹڑی پر چڑھنے میں دس دن لگ گئے۔اور وہ بھی اس وقت جب انہیں احساس ہوا کہ وہ اپنی ہی قوم سے کٹ چکے ہیں۔
پینسٹھ میں نواز شریف کی عمر بارہ تیرہ کے لگ بھگ ہو گی۔ ان کے شعور کی آنکھ ابھی نہیںکھلی تھی، انہیںنہیںمعلوم تھا کہ لاہور کی چھتوں پر لوگ چڑھے ہوئے ہیں تو بسنت منانے کے لئے نہیں۔ اور فضا میں جو دھماکے ہو رہے ہیں وہ شادی بیاہ کے پٹاخے نہیں۔
ہماری آج کی جواںنسل کے کان یہ سن سن کر پک چکے تھے کہ ہم پینسٹھ کے جذبوں سے محروم ہوگئے۔مگر یہ جذبے تھے کیا، یہ ایک معمہ تھا سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔یہ نسل تو اسی کے عشرے میںپیدا ہوئی۔ زیادہ سے زیادہ انہیں کوئی علم ہوا تو یہ کہ ان کی پیدائش سے پہلے ہی پاکستان دو لخت ہو گیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم 65ءکے جذبوں سے عاری ہو گئے تھے، مشرقی پاکستان کے لوگ، وہاں کے میڈیا اور سیاستدانوں کے پراپیگنڈے کا شکار ہو کر فوج کے مقابل صف آرا ہو گئے تھے اور ان کی پشت پر بھارت کی فوج تھی، اندرا گاندھی تھی، سووئت روس تھا اور امریکہ بہادر تھا۔
آج ایک بار پھر ہمارا، میڈیا اور ہمارے سیاستدان فوج کے خلاف صف آرا ہو نے لگے۔اکہتر میںمکتی باہنی نے پاک فوج کے خلاف مورچہ لگایا، اب یہ کام دہشت گردوں نے سنبھال لیا جو کئی ناموں سے پہچانے جاتے ہیں اور خدا جانے یہ نام بھی اصلی ہیں یا نقلی۔نوجوان نسل کے ذہنوں کو زہر آلود کرنے کی کوشش کی گئی مگر ایک معجزہ ہوا اور پینسٹھ کے جذبے زندہ ہو گئے۔ مجھے یا کسی اور کو ان جذبوں کی تشریح کرنے کی ضرورت نہیںکیونکہ نوجوان نسل ان جذبوںسے پوری طرح سرشار ہے۔ان کے دل پاکستان کے لئے دھڑکتے ہیں، انکے ہونٹ سبز ہلالی پرچم کو چومنے کے لئے بے تاب ہیں،ان کے ذہن قائد اور اقبال کے ان افکار سے روشن ہیںجن کی آبیاری برسہا برس سے ڈاکٹر مجید نظامی کرتے چلے آ رہے ہیں۔
مگر آج ڈاکٹر مجید نظامی تنہا نہیںہیں۔ایک کارواں ہے جو ان کے پیچھے چل پڑا ہے،ضیا شاہد خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں ، انہوں نے بھارت کے شردھالووںکی سازشوں سے پردہ اٹھانے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیںکی، دنیا کے چیف ایڈیٹر میاں عامر محمود ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں، انہوںنے اس پیر کو کالم لکھا اور قوم کے زندہ و تابندہ جذبوں کو نکھار کر پیش کیا۔ ڈان کے حمید ہارون میرے دوست ہیں،ان کے اخبار کی پیشانی پر لکھا ہے کہ Founded by Quaid -i-Azam Muhammad Ali Jinnah، حمید ہارون بھی قلم اٹھائیں اور قائد اعظم کی روح کوطمانیت بخشیں۔انہیں قائد کے سپاہیوں اور فدائیوںکے ساتھ کھڑے نظر آنا چاہئے۔پاکستان کے کم و بیش تما م اخبارات اور ٹی وی چینل نظریہ پاکستان کی خوشبوئیں بکھیر رہے ہیں۔ نئی نسل کو انہی سے راہنمائی ملی ہے اور وہ بھارت کے مذموم منصوبوں کے سامنے سینہ سپر دکھائی دیتی ہے۔آج قوم جس طرح متحد ہے، اس پر فخر کرنے کو جی چاہتا ہے۔
پینسٹھ میں بھی پوری قوم متحد تھی، بھارت نے رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح جارحیت کی تھی۔مگر ہم سب ،شیر، دلیر، گھبرو ڈٹ گئے تھے، ایوب خاں نے قوم کو پکارا تھا کہ لا الہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو۔ہم بھول گئے تھے کہ ایوب خان ایک مارشل لا ڈکٹیٹر ہے۔ہم سب نے لبیک کہا اور ہر محاذ پر ڈٹ گئے۔ فوج جانوںکی قربانی دے رہی تھی، شاعر ترانے لکھ رہے تھے، گلوکار ا ن ترانوںمیںاپنی آواز کا رس گھول رہے تھے۔ اور میڈیا بھارتی پراپیگنڈے کا توڑ کر رہا تھا۔ جھوٹ اس وقت بھی عام تھا، آکاش وانی کہتی تھی کہ قصور فتح ہو گیا اور بھارتی فوج انار کلی میں مٹر گشت کر رہی ہے۔ میں ان دنوں گورنمنٹ کالج کاطالب علم تھا، میرے پہلو میںانارکلی کی رنگینیاں اپنے جوبن پر تھیں۔ہاں ایک فرق پڑا تھا کہ انار کلی کے عین اوپر ڈاگ فائٹ کے منظر دیکھنے کو ملتے تھے اور زندہ دلان لاہور چھتوں پر بو کاٹا کے نعرے لگا رہے تھے۔
جنگ چھڑنے کے اگلے روز میںنے قصور کا سفر کیا، اس شہر سے بارہ کلو میٹر آگے ایک گاﺅں فتوحی والہ میں میری والدہ تھیں، میرے دوسرے بھائی تھے، سب رشتے دار تھے۔میں نے قصور کے بس اڈے میں جوانوں کو ابدی نیند سوتے دیکھا ، یہ کھیم کرن کے فاتح تھے۔ان کے چہروں پر مجھے موت کی کوئی ایک جھلک نظر نہ آئی ، ان کے چہرے گرد سے اٹے تھے لیکن کہکشاںکے ستاروں کی طرح دمک رہے تھے۔اسی قصور شہر میں جنگ بندی کے بعد دشمن سے چھینے گئے اسلحے کی نمائش لگی اور یہیں ایک ٹینک پر بیٹھ کر ڈاکٹر مجید نظامی نے وہ تصویر بنوائی جو نصف صدی بعد بھی انکے دفترمیں آویزاں ہے ۔ میں نے ہزاروں دیہاتیوںکے ساتھ کھیم کرن کے مفتوحہ علاقے کا دورہ کیا۔ایک میلے کا سماں تھا۔ لاہور کا محاذ تو سب کی نظروںکے سامنے تھا۔برکی، ہڈیارہ، بیدیاں سائفن، باٹا پور میں ہماری رانی توپیں چنگھاڑتیں تو لاہور کے گلی کوچوںمیں اللہ اکبر کے نعرے گونج اٹھتے۔ میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر لاہور کی پہلی دفاعی لائن پر داد شجاعت دیتے ہوئے امر ہوئے تو میجرشفقت بلوچ نے ہڈیارہ نالے پر دشمن کے پورے بریگیڈ کو اپنی ایک کمپنی کے ساتھ تین دن روکے رکھا۔ میرے کانوںمیں اس کے یہ الفاظ آج بھی گونج رہے ہیں جو اس نے اپنی موت سے چند برس قبل منگلا سے فون پر مجھ سے کہے تھے کہ بھارتی جنرل چودھری چھ ستمبر کی شام کو باغ جناح کے جم خانے میںشراب کا جام فتح پینا چاہتا تھا لیکن میںنے اس نڈھے کو تین دن تک ہڈیارہ کے گندے نالے کے پانی کا ایک گھونٹ تک نہ پینے دیا۔مجھے بریگیڈئر امجد علی چودھری نے بتایا تھاکہ دنیا کی جنگوںمیں کبھی ٹینکوں اور توپوں کا آمنا سامنا نہیں ہوا لیکن چونڈہ اور ظفر وال میں دشمن کے ٹینک ہمارے دفاعی حصار کو روندتے ہوئے آگے بڑھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ ٹینکوں کاسب سے بڑا معرکہ تھا ، میرے توپخانے سے ان کی مڈ بھیڑ ہوئی، اور پھر چشم فلک نے ایک انوکھا اور نا قابل یقین منظر دیکھا کہ میرے توپچی سینوںسے بم باندھ کر بھارتی ٹینکوںکے سامنے لیٹ گئے۔
آپ میں سے ہر کوئی لاہور کینٹ داخل ہوتا ہے تو پہلی سڑک شامی روڈ ہے جو فاتح کھیم کرن بریگیڈئر شامی کے نام سے منسوب ہے۔ان کی آخری آرام گاہ قصور لاہور شاہراہ پر مصطفی آباد للیانی میں واقع ہے جو روزانہ مرجع خاص و عام بنتی ہے۔ زمین و آسمان تک نور کا ایک ہالہ دیکھنا ہو تو شامی شہید کی مرقد پر حاضری دو۔
میںنے اپنے گاﺅں فتوحی والا کا ذکر کیا ہے، مجھے فخر ہے کہ یہ گاﺅں پینسٹھ ا ور اکہتر میں ہماری دفاعی افواج کا کمانڈ سنٹر تھا، میںنے گنڈا سنگھ والا کے ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی، اس کے ارد گرد ہماری میڈیم گنیں نصب تھیں اور یہیں لیفٹننٹ علی قلی خان سے میری ملاقات ہوئی تھی۔یہیں کرنل آفتاب بھی تھے جنہوںنے راجو کی پوسٹ پر ایک معرکے میں بھارتی فوج کو پچھاڑ کر رکھ دیا تھا۔جنرل خالد مقبول اپنی جوانی میں ان کے اسٹاف افسر رہے۔
کسی قوم کے پاس پینسٹھ جیسا رزم نامہ ہو تو سامنے آئے۔مجھے اپنی نوجوان نسل پر ناز ہے جس نے سینے چوڑے کر کے آج پھر پینسٹھ کے جذبوںکو زندہ کر دکھایا۔