قیادت کی مفاہمانہ سیاست سے پی پی کے جیالے مایوس

لاہور (سید شعیب الدین سے) پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی مسلسل مفاہمانہ سیاست نے پیپلز پارٹی کے جیالوں کو بددل اور مایوس کردیا ہے۔ جیالے برملا کہتے ہیں کہ جس مسلم لیگی قیادت نے ضیاء الحق کے ساتھ مل کر بھٹو کو پھانسی چڑھوایا، جس مسلم لیگی قیادت نے نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو پر الزامات لگائے اور مقدمات قائم کئے اسی مسلم لیگی قیادت سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے مفاہمت کی سیاست جاری رکھی ہوئی ہے۔ جس مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت نے صدر زرداری کو علی بابا اور ان کے وزیراعظم اور وزراء کو چالیس چور کہا، اسی مسلم لیگی وزیراعظم سے آصف علی زرداری ’’مفاہمت‘‘ کی سیاست جاری رکھتے ہوئے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ جیالوں کا کہنا ہے کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی پارٹی قیادت کبھی ان سے دور نہیں رہتی تھی۔ بھٹو اور بے نظیر بھٹو ایک ایک ورکر کو جانتے اور اس کا خیال رکھتے تھے۔ آج تو حالت یہ ہے کہ نہ آصف زرداری خود کسی ورکر سے ملنے پر تیار ہیں نہ ہی بلاول بھٹو زرداری کو ورکرز سے گھلنے ملنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ پنجاب میں 11 مئی کی شکست کے بعد تو شاید یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اب پنجاب ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ لہٰذا جھوٹے دعووں اور وعدوں پر کارکنوں کو ٹرخایا جارہا ہے۔ پہلے اعلان کیا جاتا ہے کہ بلاول ہائوس لاہور آباد ہونے لگا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری آرہے ہیں، سب سے ملیں گے۔ پھر کہا گیا کہ آصف زرداری بھی آرہے ہیں پھر یہ پروگرام منسوخ ہوا۔ پھر دوبارہ لاہور آمد کا اعلان ہوا اور پھر ورکرز کا دل توڑ دیا گیا۔ جیالوں کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا رہا تو پارٹی کا ووٹ بڑھنے کی بجائے گھٹتا جائے گا۔ قیادت وہی ہوتی ہے جو فرنٹ سے لیڈ کرے۔ مورچے میں چھپ کر اور محفوظ بیٹھ کر فوج کو نہیں لڑایا جاسکتا۔ دبئی اور بلاول ہائوس کراچی میں ’’قید‘‘ رہ کر پارٹی قیادت عوام سے رابطہ کیا رکھے گی۔ اس کا تو اپنے کارکنوں سے رابطہ نہیں رہا ہے۔ پارٹی کے پرانے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس جماعت کو اپنا خون دیا ہے، ذوالفقار علی بھٹو بہادر شخص تھے، ان کی بہادری سے متاثر ہوکر ان کے دست و بازو بنے تھے۔ اب تو پارٹی کی کسی ’’ایکٹیویٹی‘‘ میں جانے کو دل ہی نہیں کرتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...