اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) الیکشن 2013ءمیں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن نے مزید کارروائی کا لائحہ عمل طے کرتے ہوئے قرار دےا ہے کہ آئندہ سماعت پر پاکستان تحریک انصاف کے شواہد، گواہوں پر مسلم لیگ ن کے وکلا جرح کریں گے۔ سوالنامے کے مطابق جواب نہ آنے پر کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں سے گواہوں کی فہرست، مزید شواہد اور ثبوت بھی طلب کرلئے ہیں، کمشن نے کچھ سےاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم حقیقی آفاق گروپ، اے این پی کے معروضات پر الیکشن کمیشن سے دو دن میں جواب طلب کرلےا ہے۔ میڈےا کو محتاط رپورٹنگ کی تاکید کرتے ہوئے کمیشن کی مزید سماعت 5 مئی تک ملتوی کردی گئی ہے۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل تین رکنی جوڈیشل کمیشن نے مبینہ انتخابی دھاندلی کے معاملے کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے سوالنامے کا بنیادی مقصد سیاسی جماعتوں کی جانب سے کمشن کی معاونت کرنا تھا تاکہ کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے اسلئے سیاسی جماعتیں ان امور پر توجہ مرکوز رکھیں۔ دوران سماعت مہاجر قومی موومنٹ حقیقی آفاق گروپ کے وکیل حشمت حبیب نے پیش ہوکر عدالت کو بتایا کہ میں نے کمیشن کو تحقیقات کے حوالے سے کچھ اضافی تجاویز دی ہیں۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے ہمارے اٹھائے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا کیونکہ اس حوالے سے انکوائری کمیشن کی ہدایات واضح نہیں تھیں جس پر چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کو دو روز میں مہاجر قومی موومنٹ کے سوالوں کا جواب دینے کی ہدایت کرتے ہوئے واضح کیاکہ انکوائری کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی کارروائی کو آگے بڑھانے کیلئے آج لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا اور دوسرے معاملات کو بعد میں دیکھا جائے گا، پیپلزمسلم لیگ کے وکیل خواجہ اظہر رشید نے موقف اپنایا کہ ہم نے دھاندلی کے حوالے سے بہت سارے شواہد جمع کرائے ہیں لیکن الیکشن کمشن نے کوئی جواب نہیں دیا، جس پر انکوائری کمشن نے الیکشن کمشن کو ہدایت کی کہ اگلے دو روز میں پیپلز مسلم لیگ کے بیان میں اٹھائے گئے سوالوں کے جوابات جمع کرائے جائیں۔ اے این پی کی جانب سے لطیف آفریدی نے موقف اپنایا کہ الیکشن 2013 ءکے دوران ہمیں انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی ہمیں میڈیاکے ذریعے دھمکیاں دی گئیں، ڈرایا گیا، حکیم اللہ محسود کھلے عام کہاکرتے تھے کہ وہ اے این پی کو انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیں گے انتخابی مہم کے دوران ہم جب بھی کوئی جلسہ کرنے کی کوشش کرتے صوبائی انتظامیہ خطرے کا کہہ کر ہمیں روکتی، انتخابات کے دوران اور اس سے قبل ہماری جماعت دہشگردوں کی ہٹ لسٹ پر تھی، ایک صوبائی وزیر اور دو ارکان اسمبلی سمیت ہمارے سینکڑوں کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا، اس لئے ہم نے انکوائری کمشن کوکوئی جواب نہیں دیا، لیکن ہم کمشن کو ہمارے کارکنوں کے ٹارگٹ کئے جانے، خودکش حملوں و دھماکوں کی ایف آئی آرز اور الیکشن کمیشن کولکھے گئے لاتعداد خطوط کا ریکارڈ پیش کررہے ہیں ، ہماری استدعا ہے کہ الیکشن کمشن کو ہدایت کی جائے کہ وہ اس حوالے سے اے این پی کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات اور اس وقت کی صورتحال کے بارے میں کمشن کو درست جوابات پیش کرے، چیف جسٹس نے کہا کہ سےاسی جماعتیں سوالنامے کے مطابق جواب دیں۔ اس کو فوکس رکھیں ، لطیف آفریدی نے کہاکہ انکوائری کمشن ہمارے اٹھائے گئے نکات کو بھی مدنظر رکھے کیونکہ خیبر پی کے میں ایک جانب انتخابات ہورہے تھے اور دوسری طرف ہمارے کارکن قتل کئے جارہے تھے یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال سے ان سیاسی قوتوں نے فائدہ اٹھایا جو وہاں وجود نہیں رکھتی تھیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے سوالنامے کے بعد سیاسی جماعتوں کی جانب سے کچھ جوابات آگئے ہیں مزید جواب آرہے ہیں لیکن کمیشن یہ واضح کرتا ہے کہ میڈیا کمشن کی کارروائی کے بارے میں محتاط رہے وہ کمیشن کی کھلی کارروائی کی ضرور رپورٹنگ کرے لیکن اس معاملے پر اپنی آراءدینے سے گزیز کیا جائے، سیاسی جماعتیں بھی اختیاط کریں ورنہ کمشن کی کارروائی میں کوئی رکاوٹ پیش آئی توکمیشن ان کیمرہ سماعت پر غورکرے گی، ا س موقع پر تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کمیشن کی کارروائی کو ان کیمرہ جاری رکھنے کی حمایت کی تو اعتزازاحسن نے مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ کمشن کی کارروائی اوپن رکھی جائے، چیف جسٹس نے کہاکہ کمشن اپنی کارروا ئی آگے بڑھانے کیلئے لائحہ عمل طے کرنا چاہتا ہے جس کیلئے سیاسی جماعتوں کے وکلاءسے میٹنگ کی جائے گی بعدازاں انہوں نے عدالت برخواست کرتے ہوئے سیا سی جماعتوں کے وکلاءکوکانفرنس روم میں طلب کر لیا جہاں انکوائری کمیشن کی کارروائی آگے بڑھانے کیلئے متعلقہ لائحہ عمل مرتب کرنے کے بعد میٹنگ حتم کردی گئی۔ میٹنگ کے بعد مسلم لیگ ن کے وکیل شاہد حامد نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ کمشن نے لائحہ عمل طے کرنے کے بعد سیاسی جماعتوں سے شواہد اور گواہوں کی فہرستیں طلب کرلی ہیں کمشن شواہد اور گواہوں کو جانچنے کا آغاز تحریک انصاف سے کریں گے اور وہ تحریک انصاف کے گواہوں پر جرح کریں گے، اعتزاز احسن نے بھی تائید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پولنگ بیگز کھولنے کا معاملہ اٹھاےا مگر کمشن نے اسے ابھی موخر کردےا ہے کہ پہلے دیگر اہم معاملات کو دیکھ لیں پھر ضرورت کے مطابق حکمت عملی طے کی جائے گی، جوڈیشل کمشن نے میڈیا کو کمشن کے بارے میں احتیاط سے کام لینے کی ہدایت کر دی، میڈیا نے محتاط رویہ اختیار نہ کیا تو کمشن کی کاروائی ان کیمرہ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ کمشن نے گواہوں کی نئی فہرستیں طلب کر لی ہیں۔ 5 مئی کو شہادتوں پر جرح کا آغاز ہو گا۔ اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں کے وکلاءکو طلب کیا اور باہمی مشاورت کی گئی کہ آئندہ کی جوڈیشل کمشن کی کارروائی کس طرح سے کی جائے، سیاسی جماعتوں کے وکلاءنے مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ کارروائی کھلی عدالت میں ہی چلائی جائے ان کیمرہ سماعت نہ کی جائے جس پر جوڈیشل کمشن نے اتفاق کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ جوڈیشل کمشن کی آئندہ کی کارروائی بھی کھلی عدالت میں ہوگی۔ تحریک انصاف اپنے گواہوں کے حوالے سے مزید فہرست جمع کرائے دیگر سیاسی جماعتیں بھی اگر گواہوں کی کوئی فہرست دینا چاہتی ہیں تو وہ بھی پیش کریں۔ تمام تر گواہوں کی فہرست پر جرح کا آغاز پانچ مئی سے کیا جائے گا۔ جوڈیشل کمشن نے یہ کہا ہے کہ تحریک انصاف کے جواب کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے وکلاءبھی جرح کرسکیں گے۔ کمشن نے واضح کیا کہ جوڈیشل کمشن نے جو طریقہ کار وضع کیا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔ منگل کو پیش کئے گئے ثبوتوں پر بات ہوگی گواہوں پر جرح کا آغاز بھی کیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے وکیل شاہد حامد نے کمشن سے استدعا کی کہ انہیں تحریک انصاف سمیت سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کرائے گئے ثبوتوں اور جرح کا اختیار دیا جائے کمشن نے یہ استدعا منظور کرلی۔
جوڈیشل کمشن
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نیٹ نیوز + نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) پاکستان تحریک انصاف نے 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ منظم دھاندلی کا ذمہ دار حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس جماعت کے سیاسی ونگ نے عام انتخابات میں مبینہ منظم دھاندلی کی منصوبہ بندی کی تھی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے عدالتی کمشن کے سامنے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ حکمران جماعت نے پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں منظم دھاندلی کی منصوبہ بندی کی اس حوالے سے بیوروکریسی نے ان کی معاونت کی تھی۔ گزشتہ عام انتخابات کی مبینہ دھاندلی میں الیکشن کمیشن کے اہل کاروں کے علاوہ ریٹرنگ افسر اور پریزائیڈنگ افسر بھی شامل ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے علاوہ حکمراں اتحاد میں شامل جمیعت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) نے صوبہ خیبر پی کے میں بھی دھاندلی کے الزامات عائد کئے۔ دھاندلی کے حوالے سے متعدد سیاسی جماعتوں نے بھی عدالتی کمیشن کے سوالوں کے جواب جمع کرائے ہیں جن میں مخصوص حلقوں میں دھاندلی کے بارے میں کہا گیا ہے اور تحقیقات کا معاملہ جوڈیشل کمشن پر چھوڑ دیا ہے۔ عدالتی کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس ناصر الملک نے میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو کمیشن کی کارروائی پر تبصرہ کرنے سے روک دیا ہے۔ عدالتی کمیشن کا کہنا تھا کہ میڈیا کمیشن کی کارروائی کو رپورٹ کرے لیکن ان پر تبصرہ نہ کرے۔ کمشن کی کارروائی بند کمرے میں بھی کی جا سکتی ہے۔ جوڈیشل کمشن کی جانب سے اٹھائے گئے تین نکاتی سوالنامے سے متعلق تحریک انصاف، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، ق لیگ، مہاجر قومی موومنٹ، پیپلز مسلم لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں نے تحریری جواب کمشن میں جمع کرائے ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے جمع کردہ جواب میں کہا گیا ہے کہ منظم دھاندلی کے منصوبہ میں دیگر سیاسی جماعتیں اور افراد ملوث ہوسکتے ہیں، 2013 کے انتخابات میںدھاندلی کا منصوبہ مسلم لیگ ن کے سیاسی سیل نے بنایا انکوائری کمشن آرڈیننس کے سیکشن 3(اے) تا 3(سی) کے کمشن ہی مقررہ وقت میں سوالنامے میں اٹھائے گئے تین سوالات کی انکوائری کرنے کا مجاز ہے۔ الزام ثابت کرنے کے لئے سارا بوجھ کسی سیاسی جماعت یا فرد پر نہیں ڈالنا چاہیے کیونکہ سب کچھ کمیشن کے بھی سامنے ہے، بظاہرالزام لگانے کے بعد اپنے کردار کے پیش نظر یہ کمیشن کا فرض بنتا ہے کہ وہ سچ تک رسائی حاصل کرے جس کیلئے وہ سیاسی جماعتوں سے ہرممکن معاونت حاصل کر سکتا ہے تحریک انصاف کے مطابق وہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے اس لئے سوالنامے میں اٹھائے گئے سوالات سے متعلق متعلقہ شواہد، دستاویزات اور ریکارڈ تک رسائی نہیں رکھتی۔ کمشن اپنے حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے خود ان سوالات کے جواب تلاش کرے ورنہ اس کیلئے تحریک انصاف یا کسی دوسری سیاسی جماعت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا تحریک انصاف نے سوالنامے کا پیراوائز جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف الزامات کی بنیاد اور وجوہات کے بارے میں پہلے ہی کمیشن کے پاس شواہد جمع کراچکی ہے، منظم دھاندلی پنجاب سندھ اور بلوچستان کی قومی اور صوبائی نشستوں پر کی گئی ہر قابل ذکر سیاسی جماعت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرے، پانچ سال تک ملک پر حکمرانی کرے، تحریک انصاف پہلے ہی 74قومی اور صوبائی حلقوں کے حوالہ سے اپنا جواب جو ڈیشل کمیشن میں جمع کر اچکی ہے۔ نادرا کی فرانزک رپورٹ بھی جوڈیشل کمشن میںجمع ہو چکی ہے تحریک انصاف گواہوں کی فہرست بھی جوڈیشل کمیشن کو دے چکی ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنے جواب میں واضح کیا ہے کراچی اور حیدرآباد میں دھاندلی کا منصوبہ اور ڈیزائن متحدہ قومی موومنٹ نے الیکشن کمیشن کے عملے کے ساتھ مل کر تیار کیا تھا فاٹا میں یہ کام سابق گورنر خیبر پی کے شوکت اللہ نے کیا ہے ایم کیو ایم نے دھونس و دھاندلی کے ذریعے کراچی کی تمام نشتیں جیتنے کا منصوبہ بنایا تھا ایم کیوایم کے کارکن خود کوالیکشن کمیشن کا عملہ ظاہرکرتے ہوئے تمام پولنگ سٹیشنوں میں دندناتے پھرتے رہے اور دھاندلی کرتے رہے وہاں بیلٹ پیپیرز بک یا سیریل نمبرکے حوالے سے کوئی تفصیلات موجود نہ تھی اکثر لوگوں کو یہ کہہ کر واپس کیا جاتا رہا کہ ان کے ووٹ ڈالے جاچکے ہیں۔ ق لیگ نے ا پنے جواب میں قرار دیا ہے کہ 2013ءکے الیکشن میں منظم دھاندلی کی گئی۔ اس کا ذمہ دار عدلیہ، ریٹرننگ افسر، پولنگ افسروں کو قرار دےا ہے، جواب میں کہا گےا کہ انکوائری کمیشن کے پاس دھاندلی کا پتہ چلانے کے اختیارات ہیں وہ الزامات کی تحقیقات کرے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے مطابق کراچی میں قومی اسمبلی کے 11 اور صوبائی اسمبلی کے 16حلقوں میں دھاندلی کی گئی ہے۔ تحریک انصاف نے مو¿قف اختیار کیا ہے کہ دھاندلی کی تحقیقات عدالتی کمشن نے کرنی ہے حقائق تک پہنچنے کے لئے معلومات فراہم کرنا عدالتی کمشن کی قانونی ذمہ داری ہے۔ سیاسی جماعتیںکمشن میں پیش نہ بھی ہوں تب بھی تحقیقات لازمی ہے۔ دھاندلی کو ثابت کرنے کی ذمہ داری مکمل طور پر سیاسی جماعتوں پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ تمام انتخابی ریکارڈ الیکشن کمشن اور حکمران جماعتوں کی تحویل میں ہے پی ٹی آئی کی فراہم کردہ فہرست میں نامزد گواہ الیکشن کمشن نے طلب کرنے ہیں تحریک انصاف بھی دوسری جماعتوں کے ہمراہ شواہد پیش کرنے کی ذمہ دار ہے۔ تحریک انصاف سوالنامے سے قبل ہی کافی ثبوت عدالتی کمشن کو فراہم کرچکی ہے۔ ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ عام انتخابات میں ایم کیو ایم کو آزادانہ طور پر پر الیکشن لڑنے سے روکا گیا طالبان اور جہادی تنظیموں نے ایم کیو ایم کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو آزادانہ انتخابی مہم کا موقع ملا، پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے انتخابی مہم پر سب سے زیادہ اخراجات کئے۔ متعلقہ شواہد الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ جوڈیشل کمشن ٹی وی چینلز، اخبارات اور پیمرا حکام کو طلب کرکے تینوں جماعتوں کے اشتہارات کی تفصیلات حاصل کرسکتا ہے۔ ایم کیو ایم جوڈیشل کمشن سے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے مکمل تعاون پر تیار ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان حکیم اللہ محسود نے اے این پی پر خودکش حملوں کی سرعام دھمکیاں دیں، بشیر بلور سمیت سینکڑوں کارکن شہید کئے گئے انہیں انتخابی مہم بھی نہیںچلانے دی گئی۔ جوڈیشل کمشن نے متحدہ قومی موومنٹ کی درخواست پر الیکشن کمشن سے دو روز میں جواب طلب کیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے الزامات پر پیپلز پارٹی سے بھی جواب طلب کرلیا۔ بعد ازاں کمشن نے کارروائی 5 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ تحریک انصاف اپنے گواہ اسی دن پیش کرے جہاں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے وکلاءتحریک انصاف کے گواہوں پر جرح کریں گے۔ شہادتیں ریکارڈ کرنے کا عمل بھی اسی دن سے شروع کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی نے کسی سیاسی جماعت کا نام لئے بغیر کہا ہے کہ عام انتخابات میں دھاندلی کی تمام تر تحقیقات جوڈیشل کمشن کی ذمہ داری ہے۔ پنجاب میں انتخابی نتائج پیپلز پارٹی کے لئے حیران کن ہیں، دھاندلی نہ ہوتی تو نتائج یکسر مختلف ہوتے۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی طرف سے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ آرڈیننس کے تین سوالوں سے متعلق شواہد تک رسائی نہیں، ریکارڈ تک رسائی نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ دھاندلی کے الزامات جھوٹے ہیں۔ جوڈیشل کمشن میں ہمارا اور دیگر جماعتوں کا کردار استغاثہ کا نہیں، کمشن قانون کی روح کا احترام کرے۔ دھاندلی کی تحقیقات کرنا جوڈیشل کمشن کا کام ہے۔
سیاسی جماعتیں/ بیان