انسان اس دنیا میں نہ اپنی مرضی سے آتا ہے۔ اور نہ ہی اس کو اپنی مرضی سے جانے کا اختیار ہے۔ یہ زندگی خدا تعالی کی دی ہوئی امانت ہے۔ اور ہمیں ہر حال میں اس امانت کو سنبھال کے رکھنا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔ یقینا اﷲ نہیں پسند کرتا کسی خیانت کرنے والے ناشکرے کو (سورہ الج آیت نمبر 38) معاشرے میں بڑھتی ہوئی بد نظمی ، ابتری اور بے حسی آخرکار وہ وقت بھی لے آئی ہے جہاں انسانی جان کی اب کوئی قدر و قیمت ہی نہیں رہی صرف اس ہفتے کے واقعات کو ہی لیجئے کہ ایک طرف شہباز احمد خود کو آگ لگا دیتا ہے تو دوسری طرف سونیا پنجاب پولیس کے مظالم سے تنگ آکر خود پہ پٹرول چھڑک کر موت کو گلے لگا لیتی ہے۔ اخبارات کے صفحات روزانہ خودکشی و خود سوزی کے واقعات سے بھرے نظر آتے ہیں۔ کہیں بے روز گاری کے زہر نے مجبور و بے بس انسان کو زندگی سے منہ موڑنے پر مجبور کر دیا۔ کہیں معاشرے کے بہیمانہ رویوں نے کسی انسان کی زندگی چھین لی، کہیں کسی نوجوان کی تمناﺅں کا خون ہوا تو اس نے جان کی بازی ہار دی، کہیں ماﺅں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بھوک سے بلبلاتے دیکھا تو ان سے ان کی زندگی چھین لی، کہیں بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں لوٹ لی گئیں تو انہوں نے بے عزتی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے گلے لگا لیا۔ مختلف سروے رپورٹوں کے مطابق صرف پچھلے ایک سال میں ہزار سے زائد افراد نے خودکشی کی اور بہت سے خود سوزی کے واقعات بھی منظر عام پر آئے یہ تمام واقعات اس معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں۔ یہ ملک جس کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی اور آزادی کے وقت نعرہ لگایا گیا تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ کبھی آج سے چودہ سو سال پہلے مڑ کر دیکھیں تو حضرت عمرؓ کا دور بھی نظر آتا ہے جو کہ اس خوف سے دن رات رعایا کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے تھے کہ قیامت کے دن دریا کنارے بھوک سے مرنے والے کتے کے بارے میں بھی مجھ سے پوچھ ہو گی۔ لیکن یہاں ارباب اقتدار کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک حلقے کے الیکشن کے لئے اربوں روپے جھونک دئیے جاتے ہیں لیکن غریب کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ یہاں غریب زندگی کو بوجھ سمجھ کر اسے اتارنے کے لئے ہر وقت حیلے بہانے دھونڈتا رہتا ہے اور حالات کی سختی اس سے حلال، حرام کا فرق تک چھین لیتی ہے۔ میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جو کہ زندگی کے شب و روز سے گھبرا کے موت کے اندھیروں میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں زندگی ختم کرنا سب سے آسان حل نظر آتا ہے اور گردش حالات کے آ گے اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ عام طور پر خودکشی کا رجحان ان لوگوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جو کہ اپنے اردگرد کے حالات سے بالکل مایوس ہو جاتے ہیں۔ اور ان کی امید بالآخر دم توڑ دیتی ہے اور جو لوگ اﷲ کی رحمت سے مایوس ہو جائےں پھر ان کو اپنے زندہ رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا حالانکہ یہ لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اﷲ تعالی تو خود انسانوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ مجھ سے مانگو بے شک میں تمہاری دعاﺅں کو سننے اور قبول کرنے والا ہوںزندگی سے مایوس انسانو! کیا تم نے کبھی پیغمبروں کی زندگی کے شب و روز کی تحقیق کی جو ہم بچپن میں اپنے نصاب میں پڑھا کرتے تھے کہ عین اس وقت جب آدھا عرب آپ کے زیر نگیں ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ آپ کے گھر تشریف لاتے ہیں۔ ادھر ادھر نظر اٹھا کے کاشانہ نبوت کے سامان کا جائزہ لیتے ہیں۔ آپ چٹائی پر آرام فرما رہے ہیں۔ جسم مبارک پر بانوں کے نشان پڑ گئے ہیں اگر تم حالات سے بہت مایوس ہو تو آﺅ چلو میں تمہیں ایک اور جہاں بھی دکھاﺅں یہ دیکھو چشم تر سے اپنے سامنے وہ منظر کہ بلال مدینے کی گلیوں میں گھسیٹے جا رہے ہیں۔ مظالم کی انتہا ہو چکی ہے پھر بھی زبان سے کلمہ حق جاری ہے۔ یہ صہیب رومیؓ کو دیکھو جسم لہو لہان ہے پھر بھی زبان پر خدا کا نام ہے۔ حضرت خبیب انصاری کو دیکھو کہ اسلام قبول کرنے کے جرم میں سولی چڑھا دئیے گئے۔ نبی کے ایک اور صحابہؓ کی طرف نظر کرو اس حد تک ظلم سہے ہیں کہ پیٹھ کی ہڈیوں سے گوشت جدا ہو گیا ہے۔ حضرت عامر بن فہیرہؓ، حضرت عماد بن یاسرؓ، اور ان کے والد کی طرف دیکھو الغرض تاریخ اسلام بھری پڑی ہے ایسی داستانوں سے، پر انہوں نے کبھی اﷲ سے شکوہ نہیں کیا، اس لئے کہ ان کے پاس صبر و یقیں کی دولت تھی اور اب تم حقیقت کے آئینے میں ا پنی طرف نظر دوڑاﺅ کہ کیا ان آزمائشوں سے تمہاری آزمائش زیادہ بڑی ہے کیا ان امتحانوں سے تمہارا امتحان زیادہ کڑا ہے۔ اور اے لوگو! تم کیا سمجھتے ہو کہ زندگی کے مسائل سے گھبرا کے موت کی پناہ حاصل کر لینے سے تم کو غموں، اذیتوں سے پناہ مل جائے گی تو تم ایمان کے سب سے کمزور درجے میں شامل ہو زندگی تو تمیں عذاب لگتی ہی ہے اور موت کے بعد کی زندگی کو تم خود عذاب بنانا چاہتے ہو کیا تم دنیاوی و ابدی زندگی میں صرف گھاٹے کا سودا چاہتے ہو۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے آپ کو کسی آہنی ہتھیار سے ہلاک کیا تو وہ شخص ہمیشہ دوزخ میں اس طرح سے رہے گا کہ اس ہتھیار سے اپنا پیٹ چاک کرتا رہے گا۔ جس شخص نے زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کیا تو وہ شخص ہمیشہ دوزخ میں یوں جلتا رہے گا کہ زہر کے گھونٹ پیتا رہے گا اور جس شخص نے پہاڑ سے گرا کر خود کشی کی تو وہ دوزخ میں ہمیشہ اونچائی سے گر کر عذاب بھگتتا رہے گا۔ یعنی جو اپنی ہلاکت کے جس تکلیف دہ طریقہ پر عمل کرتا رہا وہ آخرت میں بھی اسی طرح کا عذاب بھگتے گا۔ زندگی سے بددل انسانو ! اپنے دل میں امید پیدا کرو جینے کا حوصلہ پیدا کرو ہر وقت معاشرے کو الزام دینے کی بجائے، اس کی ستم ظریفیاں گننے اور اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے سے بہتر ہے کہ اپنے اندر حالات سے لڑنے کی قوت پیدا کرو اپنے ساتھ ساتھ اپنے سے وابستہ لوگوں کی راہیں بھی روشن کرو انہیں اپنے ہونے کا احساس دلاﺅ ان کے دلوں میں یقین کی قوت پیدا کرو تمہارے حالات خودبخود بدلیں گے اور منز ل تمہارے لئے خود راستے تلاش کرے گی اور زندگی کا کوئی لمحہ آزمائش نہیں لگے گا۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا حالات بظاہر کیسے ہی مایوس کن ہوں، زندگی خواہ کتنی ہی مشکل لگتی ہو حیات چاہے کتنی ہی پر اذیت ہو، اپنی آس کبھی مت توڑنا ، رب کریم کی رحمت سے کبھی بھی مایوس مت ہونا کیونکہ قرآن شریف میں ارشاد ہوتا ہے ”دیکھو اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا واقعہ یہ ہے کہ اﷲ کی رحمت سے تو وہی لوگ مایوس ہوتے ہیں جو کافر ہیں (سورہ یوسف ۲۱©:۷۸)
بے شک جن کے لئے زندگی کا امتحان کڑا ہے آخرت کے نتائج بھی ان کےلئے ہی بہترین ہیں۔