پاکستان میں مستقبل کا سیاسی منظر

وطن عزیز میں تاثر عام ہے کہ پاکستان کے ان داتا‘ اینگلو امریکی منصوبہ سازوں نے چارٹر آف ڈیمو کریسی کی سرپرستی کرتے ہوئے دو بڑی سیاسی جماعتوں‘ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اور مسلم لیگ (نواز) کے لئے حکمرانی کی باریوں کا اہتمام کیا ہے۔ یہ تاثر اول 2012ءمیں ملکی اسٹیبلشمنٹ نے عام کیا تھا اور ایک ابھرتے ہوئے سیاسی جماعت نے دعویٰ کیا تھا کہ اب ان کی جماعت کی ملک پر حکمرانی کرنے کی باری ہے۔ چارٹر آف ڈیمو کریسی کا مطالعہ کیا جائے تو وہ باریوں کی سیاست سے کہیں مختلف اور محترم اعلامیہ ہے۔ اس اعلامیہ کے اہداف کچھ حاصل کئے جا چکے ہیں اور مزید اہداف حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کے تحت عمل جاری ہے۔ البتہ عوام کو گمراہ کنندگان‘ مفروضوں کو بنیاد بنا کر آئندہ سیاسی منظر کی پیشن گوئیاں کی جا رہی ہیں۔ چارٹر آف ڈیمو کریسی کی حاصل کردہ اہداف میں‘ مطلق العنانی کا خاتمہ‘ دستور کی اصل شکل میں بحالی‘ ملک کو اینگلو / امریکی اور انڈو / اسرائیلی ساختہ بحرانوں سے محفوظ کرنے کے لئے دونوں بڑی جماعتوں کی آپس میں تعاون اور مشترکہ جدوجہد شامل ہیں اور یہ تمام اہداف حاصل کئے جا چکے ہیں۔ ملک کو امن اور ترقی کی پٹڑی پر ڈال دیا گیا ہے۔ گوکہ گزشتہ اور موجودہ حکومتوں میں بدعنوانی اور عوامی دولت کی لوٹ مار جیسی دیمک سے نجات حاصل نہیں ہو سکا‘ مگر کچھ ایسے اُپاءلئے جاتے رہے ہیں جس کی بدولت اس مرض کا علاج کیا جا رہا ہے۔ نئی ملینیم میں سیاسی جماعتوں نے گزشتہ صدی کی فرسودہ سیاست اپنائی ہوئی ہے اور بیسویں صدی کے حربے استعمال کرکے حکمرانی کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو جن جماعتوں کی صوبوں میں حکومتیں ہیں یا کسی جماعت کے اشتراک کے ساتھ حکومت بنائی ہوئی ہے‘ ان کی تمام تر توانائیاں شہری آبادی اور مخصوص جماعتوں نے خواندہ مراعات یافتہ طبققہ کو خوش کرنے اور ان کو خوش فہمی میں مبتلا کرنے میں صرف کی ہوئی ہیں۔ جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف نے صوبہ خیبر پی کے میں اور ان جماعتوں نے اپنی اپنی حیثیت میں دیگر صوبوں میں شہری آبادی کے دل جیتنے پر توانائیاں صرف کئے ہوئے ہیں۔ دیگر اسلامی جماعتیں عوام کو بعد ازمرگ جنت کے وعدے و عہد کرکے ووٹ حاصل کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ ان اسلامی جماعتوں کے پاس‘ اس دنیا میں عوام کی معیار زندگی بہتر کرنے کےلئے کوئی معاشی پروگرام نہیں ہے۔ ملک میں دو بڑی جماعتیں ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کی سندھ میں حکومت ہے اور اب اس جماعت کے جواں سال وزیراعلیٰ اپنے جواں سال قائد کو لیکر پلوں اور دیگر تعمیراتی منصوبوں کے افتتاح کرواتے رہتے ہیں۔ اصل عوامی خدمت اور بہبود کو دانستہ نظرانداز کرکے عوام کو ریاست کا فعال عنصر بنانے کی بجائے ریاست کا دست نگر رکھنے میں مصروف عمل ہیں۔ البتہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے ملک کی شہری و دیہی آبادی کی ترقی و خوشحالی پر توجہ دی ہوئی ہے۔ ملک کے توانائی کے مسائل کا حل اور سی پیک منصوبہ کی تکمیل کے ساتھ عوام کو براہ راست فوائد کے حامل منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔
2015ءکے اعداد و شمارجات کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 38.76 شہری آبادی ہے جبکہ 61.24% دیہی آبادی ہے۔ یہ فرق ہر سال کم ہوتا جا رہا ہے۔ 2015ءمیں شہری آبادی میں اضافے کی شرح 3.2% رہی جبکہ دیہی آبادی میں اضافہ 1.3% کی شرح سے ہوا ہے۔
پاکستان میں شہری آبادی کو ترقی یافتہ دور کی تمام سہولیات میسر کی گئی ہیں اور ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت مزید سہولیات تواتر کے ساتھ مہیا کی جاتی ہیں جبکہ دیہی آبادی اکثر سہولیات سے محروم ہے۔ دیہی آبادی کی اکثریت کاشتکاری کے شعبہ سے منسلک ہے اور زراعت سے ملک کے لئے GDP کا 24% حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دیہی آبادی ملک کی 20 کروڑ آبادی کے لئے غلہ‘ پھل‘ سبزیاں‘ پروٹین اور دیگر عذائی ضروریات کی چیزیں مہیا کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں صنعت کے لئے خام مال اور تجارت کے لئے تیار مال بھی مہیا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر غیر زراعتی کام بھی سرانجام دیتا ہے۔ دیہی آبادی‘ تعمیرات‘ ٹرانسپورٹ‘ صنعت و تجارت کے لئے افرادی قوت اور شہری آبادی کے لئے گھریلو ملازمین اور دیگر افرادی قوت مہیا کرتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دیہی آبادی کو بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ راقم کا تعلق دیہی آبادی سے ہے اور دیہی آبادی میں اکثر آنا جانا رہتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ حکومت پنجاب نے شہری آبادی کی ترقی کے ساتھ دیہی آبادی میں بھی تسلسل کے ساتھ ترقیاتی کام کئے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں دانش سکول کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان سکولوں میں دیہی عوام کی غریب ترین خاندانوں کے ہونہار بچوں کو حکومت پنجاب کے زیر کفالت‘ مفت اعلیٰ معیار کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ دانش سکولوں سے فارغ التحصیل نوجوان جب میدان عمل میں آئیں گے تو ملک میں ایک خوشگوار انقلابی تبدیلی آجائے گی۔ پنجاب میں فارم سے منڈی تک سڑکوں کا جال بچھایا جا چکا ہے جس کی بدولت کاشتکار مویشی بان مرغی بان اور مچھلی فارم مالکان‘ بغیر دقت‘ سرعت کے ساتھ اپنی پیداوار منڈیوں میں لاکر فروخت کرکے پیسے کماتے ہیں تو ان کی معیار زندگی میں بہتری آتی ہے۔ حکومت پنجاب کی طرف سے مال مویشی‘ مرغیاں وغیرہ کی صحت مند افزائش کے لئے ویٹرنری ڈاکٹروں اور عملہ اور دوائیوں کا پنجاب بھر میں معقول نظام بنایا ہوا ہے۔ فارمر کو جانوروں اور مرغیوں کی حفاظتی ٹیکے اور بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کی مفت سہولتیں عندالطلب سرعت کے ساتھ مہیا کئے جاتے ہیں۔ دیہی عوام کو بالا سہولیات کا تمام خرچ حکومت پنجاب برداشت کرتی ہے اور شکایت کنندگان کو براہ راست وزیراعلیٰ تک رسائی کی سہولت بھی حاصل ہے اس لئے نظام میں خرابی ہونا ممکن نہیں ہے۔ کاشتکاروں کو ہر موسم کی فصل کاشت کرنے سے پہلے حکومت پنجاب کی طرف سے رعایتی قیمت پر معیاری بیج اور کھادیں بھی مہیا کی جاتی ہیں اور کاشتکاروں کو امدادی رقوم کا اجراءبھی کیا جاتا ہے۔ ان تمام اقدامات کی بدولت دیہی عوام میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی حکومت پر اعتماد بڑھتا جاتا ہے۔
پنجاب حکومت کی اعلیٰ قیادت دیہی عوام کے ساتھ رابطوں کے دوران باور کراتے ہیں کہ ملک میں پانی کی کمی کے بحران کے ذمہ داران‘ پاکستان پیپلز پارٹی ہے اور خیبر پی کے کی جماعتیں‘ جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف ہیں جو ملک کے بہترین مفاد اور ترقی کے ضامن میگاڈیم‘ کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں مخالفت کرتے ہیں۔
اگر کالا باغ ڈیم جوکہ چار یا پانچ برسوں میں تعمیر ہو کر مکمل ہو جاتا ہے تو ملک میں سیلاب ختم ہوں گے۔ ملک کا تقریباً پچاس سے ساٹھ لاکھ ایکڑ بنجر زمین زیر کاشت آئے گا اور پانی کی کمی پر قابو پایا جا سکے گا۔ جس کی وجہ سے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی صوبے کی دیہی عوام میں‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے لئے شدید نفرت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی قیادت نے پنجاب کے دیہی عوام کو یقین دلایا ہے کہ گنجائش کم ہونے کی وجہ سے تریموں بیراج اور پنجند بیراج سے سیلابی پانی نہیں گزر پاتا تھا اور پنجاب کو سیلاب کی عذاب میں مبتلا ہونا پڑتا تھا لیکن 2019/2020ءتک تریموں بیراج اور پنجند بیراج کی مرمت توسیع‘ بھل صفائی پر تعمیر جوکہ 2016ءکے اوائل میں شروع ہو چکا ہے اور تیز رفتاری سے جاری ہے۔ وہ مکمل ہو جائے گا تو تریموں بیراج سے پانی کا اخراج 8 لاکھ 75 ہزار کیوسک اور پنجند بیراج سے پانی کے اخراج کی گنجائش آٹھ لاکھ پینسٹھ ہزار کیوسک ہو جائے گا تو تمام سیلابی پانی دریا سندھ کے ذریعے گڈو کے مقام سے سندھ میں داخل ہو گا۔ یوں پنجاب سیلاب کی تباہی سے محفوظ رہے گا۔ سندھ کے رہنما کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہیں تو سیلابی پانی کو بھی سندھ ہی سنبھال لے۔ یوں سندھ دائمی طور پر سیلابوں کی زد میں رہے گا۔ یہ امر بھی پی پی پی پی‘ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے خلاف عوامی نفرت میں اضافہ کرتا ہے۔ ملک میں صوبہ پنجاب کی عوام کنگ میکر ہے۔ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے صوبہ پنجاب سے ہی ضرورت کی نشستیں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ باقی صوبوں سے چند نشستیں کافی ہوتی ہیں۔ پی ایم ایل (این) نے دیگر صوبوں کی شہری آبادی کے لئے میٹرو بس / ٹرین منصوبہ جات پر تعمیر کا کام شروع کیا ہوا ہے اور دیہی آبادی کے لئے ضلعی سطح پر بڑے ہسپتال تعمیر کرنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ حال میں گھریلو صنعتی و تجارتی گیس کنکشنوں پر سے پابندی ختم کرکے اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کو یقینی بنانے کے بعد ملک کی شہری و دیہی آبادی کے لئے ایک خوشگوار نوید سنائی گئی ہے۔ دیکھا جائے تو PML (N) عوام کے دل جیتنے کے لئے عملی کام کر رہا ہے جس سے دیہی و شہری آبادی کو براہ راست فوائد و سہولیات مہیا ہوتی ہیں۔ دیگر جماعتیں بیسویں صدی کے سیاسی طرز عمل سے آگے نہیں بڑھے۔ عوام کو زبانی کلامی وعدے و عہد‘ طرح طرح کے نعرے‘ برادریوں کی خرید و فروخت‘ دھونس‘ پولیس گردی اور بیسویں صدی کے دیگر ہربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی منظر میں PML (N) کی کارکردگی دیگر جماعتوں کے لئے چشم کشا ہیں البتہ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ آنے والے انتخابات میں کس کی کامیابی ہوتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن