وزیراعظم نوازشریف نے گزشتہ روز اوکاڑہ کے پبلک جلسے میں جہاں ان سے استعفیٰ طلب کرنیوالے اپوزیشن قائدین کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کئے وہیں انہوں نے مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے جلسوں میں شریک ہونیوالی خواتین کا موازنہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے قائدین کو یہ بھی باور کرایا کہ دیکھیں ہمارے جلسوں میں شریک خواتین کتنی شائستگی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور آپکے جلسوں میں شریک ہونیوالی خواتین کس رنگ اور ترنگ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وزیراعظم نے پی ٹی آئی کے جلسوں میں شریک ہونیوالی خواتین کو بھی اگرچہ اپنی بہنیں قرار دیا تاہم جس لب و لہجے میں انہوں نے پی ٹی آئی کی خواتین کا تذکرہ کیا وہ کسی صورت بھی شائستگی کے زمرے میں آتا ہے نہ وزیراعظم کے شایان شان ہے۔ وزیراعظم اور انکے حکومتی ساتھی اکثر اس بات کے شاکی رہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے قائدین عمران خان اور انکی پارٹی کے دوسرے عہدیداران بدتمیزی کا کلچر فروغ دے رہے ہیں اور خواتین کے احترام کے تقاضوں سے نابلد ہیں جبکہ گزشتہ روز خود وزیراعظم نے پی ٹی آئی کی خواتین کے بارے میں ایسا لب و لہجہ اختیار کیا جو انکے بیان کردہ پی ٹی آئی کے قائدین کے لب و لہجہ سے ہی مطابقت رکھتا ہے۔ اگر وزیراعظم کی جانب سے بھی اپوزیشن جماعتوں کی خواتین کے بارے میں ایسی زبان استعمال کی جائیگی تو وہ اس کلچر کو انکے بقول فروغ دینے والوں سے اپنی پارٹی کی خواتین کے ساتھ شائستہ رویہ اختیار کرنے کی کیسے توقع کرسکتے ہیں۔ حکمران پارٹی کے قائد کو تو بطور خاص خواتین کے احترام کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف آئندہ اپنے پبلک جلسوں میں یا تو اپوزیشن کی خواتین کے تذکرے سے گریز کرینگے یا انکے بطور خواتین احترام کو ضرور ملحوظ خاطر رکھیں گے۔
اوکاڑہ کے پبلک جلسے میں وزیراعظم کا پی ٹی آئی کی خواتین کیساتھ نامناسب طرز تخاطب
Apr 30, 2017