بہت محترم اور کھل کر دلیری سے بات کرنے والے صدر ممنون حسین نے شہید ہونے والی فرزانہ ناز کے بچوں کی کفالت کے لیے عرفان صدیقی کو ہدایات جاری کی ہیں۔
فرزانہ ناز کے ”قتل“ کے لیے بھی تحقیقات کرنے کا حکم دیں۔ یہ ذمہ داری کسی اور کو دی جائے ہماری ممتاز کالم نگار طیبہ ضیاءنے لکھا ہے کہ دوسرے کسی کمرے میں انعام الحق جاوید لڑکیوں کے ساتھ سیلفیاں بنوا رہے تھے جب جان بلب خاتون فرزانہ ناز کو پولیس وین میں ہسپتال لے جایا جا رہا تھا اس کے لیے وہاں ایمبولینس نہیں تھی۔
اگر صدر ممنون کی ہدایات کے مطابق سچی تحقیقات ہوں تو سارا معاملہ کھل کر سامنے آ جائے گا۔
سٹیج پر اتنا رش کیوں ہونے دیا گیا جس میں اکثریت خواتین کی تھی۔ دھکم پیل کیوں ہوئی کہ فرزانہ ناز نیچے جا گری۔ یہ سٹیج اتنا اونچا کیوں بنایا گیا۔ کیا ہمارے حکمران اور افسران موت سے اتنا ڈرتے ہیں۔ ایک نامعلوم خوف کا شکار ہیں۔
صدر محترم سے گذارش ہے کہ تحقیقات کے حوالے سے یہ بھی دیکھا جائے کہ اتنی خواتین کو سٹیج پر کیوں چڑھنے دیا گیا۔ اس تقریب میں یہ بدنظمی کیوں سامنے آئی۔
ایک خاتون گر گئی اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی مگر سٹیج پر کھڑے وی آئی پیز نے ایمبولینس منگوانے یا مناسب انتظامات کرنے کی کوشش بھی نہ کی۔ اور گری ہوئی نیم جاں عورت کی کوئی پروا نہ کی۔ انہیں اتنی فرصت نہ تھی کہ وہ اسے دیکھ لیتے یا اس کے لیے ابتدائی طبی امداد کا بندوبست کرتے۔ اس تقریب کے کرتا دھرتا بھی غافل رہے۔
کسی نے ہسپتال تک جانے کی زحمت نہیں کی۔ کوئی اب تک مرحومہ کے گھر نہیں پہنچا۔ صرف صدر ممنون حسین نے مرحومہ کے دو معصوم بچوں کے لیے سوچا اور ہدایات جاری کیں۔ اس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔
اسلام آباد میں تخلیقی اور ادبی سرگرمیوں کے انعقاد کے لیے صرف تین آدمیوں کی اجارہ داری ہے۔ کیا ان کے علاوہ کوئی اس بھرے شہر میں بلکہ جڑواں شہر پنڈی میں نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی تقریبات کرا سکے۔ بہت لوگ ہیں مگر اجارہ داری ان کی ہے جو سرکاری آدمی ہیں۔
مرحومہ بلکہ شہید فرزانہ ناز کے لیے ہم افسردہ ہیں کہ بدنظمی اور انتظامات کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔ جیسے لوگ آج ہیں ایسے ہی لوگ پہلے بھی ہمیشہ وارث ہوتے ہیں اور اس طرح کے افسوسناک واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت اسلام آباد میں ایک ہی گروپ کے کچھ لوگ چھائے ہوئے ہیں اور وہی اپنے مطلب کی تقریبات کراتے ہیں۔ نواز شریف اس حوالے سے تحقیقات کروائیں ورنہ بہادر اور سچے صدر ممنون تو تحقیقات کروا رہے ہیں۔ حکمران کو فیصلے دوستی اور دشمنی سے بالا تر ہو کر کرنا چاہئیں۔ مگر نواز شریف تو دوستوں کے لیے حکمران بنتے ہیں۔ اس وقت بھی سب اہم عہدوں پر ایسے دوستوں کو لگایا ہوا ہے جو اپنے فرائض اور عہدے کی نوعیت کو نہیں جانتے۔
ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کی نگرانی میں سہ ماہی ادیبات کا تازہ شمارہ شائع ہوا ہے۔ یہ خصوصی ادبی اشاعت ہے۔ ڈاکٹر بگھیو شعر و ادب کے فروغ اور ترویج کے لیے بہت کوشش کر رہے ہیں۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے وہ ایسا کام کر جانا چاہتے ہیں جو یادگار ہو۔
ادبی کانفرنسوں کے لیے صرف اسلام آباد میں ادیبوں شاعروں کو جمع کیا جاتا ہے۔ اب پاکستان کے کئی مختلف شہروں میں کانفرنسیں ہوں گی جہاں سب لوگ شریک ہو سکیں گے۔ میں نے برادرم حسن عباس رضا کو بھی بگھیو صاحب کے لئے معاونت کرتے ہوئے دیکھا۔ محترمہ عائشہ مسعود بھی اکادمی کے معاملات میں دلچسپی لیتی ہیں۔ عائشہ مسعود نے آزاد کشمیر کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کانفرنس کا یہ سلسلہ بہترین ادبی سرگرمی بن کے سامنے آئے گا۔
یہ بھی تو ایک ادبی کانفرس تھی جہاں ایک معصوم اور مظلوم خاتون جاں بحق ہوئی۔ اس کے قتل کا ذمہ دار کون ہے۔ کیا یہ تحقیقات کبھی ہو سکیں گی۔
٭٭٭٭٭