فوج کی طرف سے حکومتی فیصلوں کو مسترد کرنا لمحہ فکریہ

اسلام آباد (سجاد ترین، خبرنگار خصوصی) وزیراعظم نوازشریف نے ڈان لیکس کے معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات کے 18 ویں پیرے کے تحت اپنے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی سے محکمہ امور خارجہ کا پورٹ فولیو واپس لینے سمیت متعدد اقدامات کی منظوری دی ہے، اب جن لوگوں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ اتنا اہم نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں سرکاری افسر ، مشیر، افواج پاکستان کیخلاف یا ملکی ساکھ کے خلاف خبر چھپوا سکتے ہیں؟ راو¿ تحسین علی خان ریاست کے اہم اداروں میں کام کر چکے ہیں۔ وزارت دفاع میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں، ریاست کے وفادار افسر ہیں، کوئی ذی شعور یہ ماننے کو تیار نہیں کہ پالیسی ساز سطح پر مشورے یا اجازت کے بغیر کوئی بھی یہ خبر چھپوا سکتا ہے۔ فوج کی جانب سے اتنی سختی سے حکومتی فیصلوں کو مسترد کیا جانا ایک لمحہ فکریہ ہے۔ فوج کا اتنا واضح جواب اس بات کا اعتراف ہے کہ حکومت کا رویہ ان کیلئے ناقابلِ قبول ہے۔ حکومت نے پانامہ لیکس کے بعد اپنے لیے ایک اور ایشو کھڑا کرلیا ہے، اس معاملے میں ملوث بڑے لوگوں کی پردہ پوشی کی جا رہی ہے جبکہ چھوٹے لوگوں کو پکڑا جا رہا ہے اور سزا دی جا رہی ہے لیکن پاکستانی فوج نے وزیراعظم کے اس نوٹیفکیشن کو مسترد کر دیا ہے جس سے ایک بار پھر ملک میں حکومت اور فوج کے درمیان اس معاملے پر اختلاف کی قیاس آرائیوں کو تقویت ملی ہے۔ ادھر وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے فوج کی طرف سے ٹوئٹر پر بیان کے تناظر میں ہونے والی بحث پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اداروں کے مابین ٹوئٹر پر رابطے کرنا بدقسمتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ نوٹیفکیشن کی تمام سفارشات پر من و عن عمل کیا جائیگا۔ اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی تھی سیاسی و عسکری قیادت اس خبر کو بے بنیاد قرار دیتی رہی جبکہ اخبار کا استدلال تھا کہ اس نے تمام حقائق کی جانچ کے بعد ہی اسے شائع کیا۔اس معاملے پر حکومت نے وزیراطلاعات پرویز رشید سے یہ کہہ کر وزارت کا قلمدان واپس لے لیا تھا کہ وہ ایک ”غلط خبر“ رکوانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکے،لیکن فوج کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ حساس اجلاس کے بارے میں معلومات اخباری نمائندے تک پہنچانے والوں کو تعین کرنے کیلئے مفصل تحقیقات کی جائے۔
لمحہ فکریہ

ای پیپر دی نیشن