لاہور میں گھومتے اور قدیم پرشکوہ عمارتیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کسی زمانے میں عام لوگ ان عمارتوں کے قریب پھٹکنے کی بھی جرات نہیں کرتے ہوں گے۔ آج یہ قدیم شکستہ عمارتیں عام لوگوں کے لیے ایک سیر گاہ بن چکی ہیں، جنہیں عالمی تاریخی ورثہ قرار دے کر بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مغل بادشاہ بابر نے 1526ء میں ابراہیم لودھی کو پانی پت کی پہلی جنگ میں شکست دے کر ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ سلطنت 1857ء میں بدحال ہو کر اختتام پذیر ہو گئی لیکن سوا تین سو سال کے دوران اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں مغل سلطنت کا عالمی معیشت میں حصہ تقریباً 25 فیصد تھا۔ یہ ان تین مسلم ریاستوں میں شامل تھی جن کی افواج بارود کا استعمال جانتی تھیں۔ لیکن تاریخ سے نابلد ہمارے بعض سیاسی قائدین و ناقدین اور مبصرین مغل سلطنت کا ذکر ایک برائی اور گالی کے طور پر کرتے ہیں اور خاص طور پر اورنگزیب عالمگیر کے بارے میں گھڑی گھڑائی باتیں کسی سے سن کر دوہرائی جاتی رہی ہیں۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ مغلوں کی سلطنت اپنے دور کی ماڈرن اور امیر ترین سلطنتوں میں سے ایک تھی جس نے اکبر اعظم، جہانگیر، شاہجہاں اور پھر اورنگزیب عالمگیر کے 151 سالہ عہد میں مسلسل عروج کا سفر کیا تو جواباً کہا جائے گا کہ ان چاروں ہر مغل بادشاہ کو کئی کئی عشرے مکمل اختیارات کے ساتھ حکومت کرنے کا موقع بھی تو ملا تھا جبکہ یہاں تو جمہوری حکومت پانچ سال بھی مشکل ہی سے پورے کر پاتی ہے۔ کبھی وزیر اعظم کو صدر مملکت کے خلاف سوئس عدالت کو خط نہ لکھنے کے جرم میں ایک منٹ کی سزا دے کر فارغ کر دیا جاتا ہے تو ایک وزیر اعظم پانامہ کیس میں اقامہ پر تاحیات نااہل قرار دے کر باہر کر دیا جاتا ہے۔ اگر ہمیں بھی اتنی طویل اور با اختیار حکومت دے دی جائے تو ہم بھی قومی معیشت کو مضبوط بنا دیں گے۔ دلیل اچھی ہو سکتی ہے لیکن اس دور کے مسائل بھی بالکل مختلف تھے۔ مغلیہ سلطنت میں اقتدار کی منتقلی کا کوئی واضح نظام موجود نہیں تھا اس وجہ سے بعض مغل بادشاہ اقتدار کے لیے ہلاک بھی کیے گئے۔ اس دور میں شورشیں اور بغاوتیں عام بات تھی جس کے لیے مغل شہزادوں کو بھی میدان جنگ میں اتر کر خونریز لڑائیاں لڑنا پڑتی تھیں اور تمام تر آسائشوں کے باوجود کسی عام سپاہی کی طرح جنگی مہموں کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی تھیں۔ آج کے قائدین کو محض انتخابی معرکہ آرائی میں حصہ لینا ہوتا ہے۔ اپنے مخالفین پر زبانی گولہ باری کرنا ہوتی ہے۔ دولت کا ہتھیار چلا کر جو زیادہ ٹھپے لگوا لے وہی اگلے پانچ سال کے لیے سکندر بن جاتا ہے۔ اگر مغلیہ سلطنت کے عروج اور پاکستان کے لولے لنگڑے نظام کا موازنہ کریں تو نہ جانے کیوں راجہ بھوج اور گنگو تیلی کا محاورہ یاد آنے لگتا ہے۔ہمارے بعض ناقدین ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام پسند بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے بھائیوں کو مروا کر باپ کو قید میں ڈال دیا تھا۔ اس بات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ سب لوگ ایک مکان میں رہتے تھے اور ایک دن اورنگزیب عالمگیر نے اپنے بھائیوں کو قتل کر دیا اور باپ کو قلعے کی کسی کال کوٹھڑی میں قید کر دیا۔ اس کہانی میں مارشل لا کے نفاذ ، قید اور پھانسی جیسے واقعات کا تاثر ملتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کے بھائی دارا شکوہ، شاہ شجاع اور مراد بخش بھی اتنے ہی طاقتور شہزادے تھے جتنا وہ خود تھا۔ یہ تینوں شہزادے اپنے اپنے علاقوں کے گورنر تھے جن کے پاس اپنی اپنی طاقتور مغل فوج بھی تھی۔ جب شاہ جہاں بیمار ہوا تو مغل شہزادوں میں اقتدار کی کشمکش شروع ہوئی، کیونکہ داراشکوہ سب سے بڑا اور شاہ جہاں کے قریب تھا اس لیے دوسرے شہزادوں کو خدشہ ہوا کہ سب کچھ داراشکوہ کو مل جائے گا لہٰذا انہوں نے اپنی اپنی خود مختار ریاستیں بنانے کا اعلان کرکے مغل سلطنت کے ٹکڑے ہو جانے کے خدشہ پیدا کر دیا۔ جس کے بعد مغل شہزادوں کے درمیان کئی برس تک جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جنگوں کے نتائج سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اورنگزیب عالمگیر اپنے بھائیوں کے مقابلے میں ایک بہتر جنرل تھا ورنہ وہ ہلاک ہو گیا ہوتا۔ شکست کے بعد شہزادہ مراد بخش کو اپنے دیوان کو قتل کروانے کے مقدمے میں شرعی قوانین کے تحت سزائے موت دی گئی تھی۔ شہزادہ شاہ شجاع شکست کے بعد برما کی جانب فرار ہوتے ہوئے وہاں کے مقامی حکمراں کے ہاتھوں ہلاک ہوا جبکہ شہزادہ دارا شکوہ کو شکست ہونے کے بعد مرتد ہونے ہندو بن جانے کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔ داراشکوہ کی شکست کے بعد اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے والد شاہ جہاں سے اقتدار چھین کر آگرہ کے قلعے میں محصور کر دیا تھا جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری آٹھ سال اپنی چہیتی بیٹی شہزادی جہاں آرا کی دیکھ بھال میں گزارے۔ مغل سلطنت کی کامیابی چند بنیادی وجوہات یہ تھیں کہ پوری سلطنت میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا تھا، نئی سڑکیں بنانا، ان کی دیکھ بھال کرنا اور دوسرے معاشی ڈھانچے کا انتظام چلانا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ نہری نظام بنانے سے پیداوار میں گراں قدر اضافہ ہوا تھا۔………(جاری ہے)