امریکہ میں ایک شخص فیکٹری کے حادثے میں اپنے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا گنوا بیٹھا۔سماجی تحفظ کے قانون کے مطابق اسے معذوری کا معاوضہ(جو پاکستان میں 40فی صد ہے) دیا جانے لگا تو اس نے سو فی صد کا مطالبہ کیا۔لیبر کورٹ نے اس کا دعویٰ مستردکردیا۔ اس نے اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کردی۔جج صاحب نے اس کے وکیل سے پوچھا’’تمھارا موکل آخر سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے سے ایسا کیا کام کرتا رہا ہے جو اس کے ضائع ہونے پر وہ سو فی صد معذوری کا دعوے دار ہے؟‘‘ وکیل نے جواب دیا’’جناب والا، وہ ساری عمر چلتی گاڑیوں سے لفٹ مانگ کر سفر کرتا رہا ہے۔‘‘ گویا ایک طرف وہ ہیں جو ایک انگوٹھے کے نقصان کو مکمل معذوری کا بہانہ بنالیتے ہیں۔دوسری طرف ہم نے ویت نام میں آدھے آدھے دھڑ سے معذور لوگوں کو محنت کی روزی کماتے دیکھا۔سوچی جنگل کی پر فریب سرنگوں کے دورے سے واپسی کی راہ پر گائڈ ہمیں ایک بہت بڑی فیکٹری میں لے آیا جہاں تمام کام ویت نام جنگ کے معذور پوری مہارت،تندہی، دلچسپی اور انہماک سے انجام دے رہے تھے۔جنگ میں جو ہزارہالوگ(مرد اور عورتیںجن میں سے بیشتر اُس وقت نوجوان یا بچے ہوں گے )زخمی اور معذور ہوئے تھے،حکومت نے ان کے لیے محتاج خانے بنانے کے بجائے انھیں ہنر سکھا کر معاشرے کا کار آمدشہری بنایا۔یہ فیکٹری اپنی نوعیت میں ایکTouristic Point(سیاحتی مقام)بن گئی ہے۔وہاں بہت سی بسیں کھڑی ہوئی تھیں جن میں آنے والے سیاح یہاں کے ملازمین کی کاریگری کی نہ صرف داد دے رہے تھے بلکہ ان کی بنائی ہوئی مصنوعات کو دھڑادھڑ خرید رہے تھے۔اس فیکٹری کی صنعت کو "Egg Art"(انڈا آرٹ) کا شاہکار کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ایسا نہیں تھا کہ وہ لوگ(جن کی عمریں پچاس برس سے زیادہ تھیں) انڈوں پر رنگوں سے ڈیزائن بنارہے تھے۔وہ توکچھ اور ہی، ناقابلِ یقین فن کے نمونے تھے جن کی تکمیل کے مختلف مراحل سب کی آنکھوں کے سامنے سر انجام پارہے تھے۔لیجیے ہم آپ کو اپنی طرز کی اس منفرد فیکٹری اور اس کی آرٹ گیلری کی سیر کراتے ہیں۔ایک بڑے دروازے سے سیاحوں کو ورکشاپ کے اندر ایک ہال میں لایا گیاجہاںقریب قریب بنے ہوئے گوشوں میں کارندے اپنے معینہ کاموں میں مشغول تھے۔ان میں سے کسی کی بھی توجہ سیاحوں کی طرف نہیںتھی۔پہلے گوشے میں ایک خاتون انڈوں کے چھلکوں کو (نہ کہ انڈوں کو) اپنے سامنے رکھے ہوئے پانی کے ڈرم میںاحتیاط سے دھو کر اپنے دائیں جانب بیٹھے کارکن کے پاس ایک کھلے منہ کے بڑے سے برتن میں ڈالتی جاتی۔معلوم ہوا کہ یہ چھلکے ہوچی مِنھ سٹی کے ہوٹلوں سے جمع کر کے یہاں لائے گئے تھے۔اب اندازہ لگائیے، جو قوم اپنے کھائے ہوئے انڈوں کے چھلکوں کو بھی ضائع نہ ہونے دے اور انھیںزر مبادلہ کی کمائی کا ذریعہ بنالے وہ بھلا کیسے غریب رہ سکتی ہے؟انڈے دھونے والی عورت نے اپنی ایک ٹانگ کرسی سے نیچے لٹکا رکھی تھی جبکہ اس کی دوسری ٹانگ پیچھے دیوار کے سہارے ٹِکی ہوئی تھی...وہ لکڑی کی تھی۔اس کے برابر میں بیٹھا ہوا شخص جو ایک آنکھ سے محروم تھا چھلکوں کی سفیدجھلّی ا حتیاط سے ہٹا کر انھیں ایک فائبر کی تختی پر پھیلاکرچپٹاکردیتا۔ تختی پر تار کول جیسا کوئی چپکنے والا کیمیکل لگا ہوا تھا۔ اس کی مہارت یہ تھی کہ چھلکے کو چُوراچُورا نہیں ہونے دیتا تھا ۔ وہ بڑی فنکاری سے چھلکے کو پلیٹ پر چپکا کر اسے ایک رومال سے دباتا۔ایک شیٹ پر(سائزکی مناسبت سے) چار چھ انڈوں کے چھلکے چپکتے لیکن خصوصی آرڈر پر کوئی مال بنانا ہو تو2x2فٹ یااس سے بڑی پلیٹ پر 50سے 100چھلکے چپکائے جاسکتے تھے۔ہم ایک ایک مرحلے کو بغور دیکھ کر آگے بڑھتے جاتے اور حیران ہوتے کہ آخر کار اس سب عرق ریزی کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے ۔اگلے گوشے میں چار کارکن بیٹھے تھے جوسب ایک ہی کام کررہے تھے وہ چاروں نچلے دھڑ سے معذور تھے۔وہ ویل چیئر پر بیٹھ کر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔کرسیاں ان کے سامنے رکھی ہوئی پتھر کی ایک بڑی سی میز کے ساتھ اس طرح سَیٹ تھیں کہ انھیں جھکنانہیں پڑرہا تھا۔جب یہ چھلکے لگی ہوئی فائبر کی شیٹیںکھسکا کر آگے یعنی ساتھ والے کارکن کے سامنے کردی جاتیں تووہاں انھیں ایک خاص درجہ حرات پر پکاکر پختہ کیا جاتااور پھرپاس رکھے ہوئے ٹھنڈے پانی کے ڈرم میں چھوڑ دیا جاتا ۔اب چھلکے فائبرکی پلیٹوں میں پیوست ہوگئے تھے۔ اگلے سیکشن میں ایک کارندہ ایک لمبی سی مخصوص قینچی کے ذریعے ایک ایک پلیٹ کو نکال کرباہر رکھتا جاتا ۔ اس کے بعد پروڈکشن لائن بدلی۔اس کے سامنے دوسری جانب برابرابرا بر بیٹھے ہوئے تین چار کاریگر ایک ایک پلیٹ کو اٹھاتے۔دیکھنے والے دنگ تھے اس لیے کہ اس پر انڈوں کے چھلکوں کے سواکچھ بھی نہیں ہوتا۔یہ فنکار مختلف قسم کے کانٹوںاورنازک میخوں کے ذریعے چھلکوں کے ان حصوں کوچھانٹ دیتے جو اطراف میں بے ترتیب تھے یا جو مطلوبہ ڈیزائن میں جگہ نہیں بناپارہے تھے۔چھلکے اتنے پاس پاس چپکائے گئے تھے کہ ان کے درمیان صرف بال برابر فاصلہ تھا جو ایک باریک سیاہ ریشمی ڈورے کے دھا گے کی طرح نظر آرہا تھا۔اطراف کے کنارے ہٹنے کے بعد یہ ایک ایسی شیٹ بن گئی جیسے کسی چیز کی سفیدتہ پر باریک باریک سیاہ شگاف پڑے ہوئے ہوں۔ہمارے پوتے فریس قریشی کو اس حالت میں بھی یہ شیٹس خوبصورت لگیں۔اس کا خیال تھا کہ یہاں آرٹ ختم ہوگیا لیکن اصل آرٹ یہاں سے شروع ہوتا تھا۔جب یہ شیٹس سامنے بیٹھے ہوئے فنکاروں کے پاس آتیں تو وہ ان کی سطح پر خود بخودبنے ہوئے شگافوں کو جوں کا توںچھوڑ کرایک نہرنی(وہ چھوٹا سا آلہ جس کی مدد سے حجام حضرات گاہک کے ناخن کاٹتے ہیں)سے ویسے ہی مزید شگاف (ڈیزائن کے مطابق) ڈالنے لگتے۔یہ شگاف اتنی مہارت،نزاکت اور نفاست سے ڈالے جارہے تھے کہ چھلکوں کی سطح پر انسانی صورتیں،قدرتی مناظر،مختلف ظروف(مرتبان ، پھولوں سے بھرے ہوئے گلدان، چائے کی پیالیاں وغیرہ)کی تصاویر بنتی چلی جارہی تھیں۔ہر تصویر کے بیچ یااطراف میں جوشگاف آتے ان سے تصویر کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہو جاتا ۔ سب سے مشکل کام اس فنکار کا تھا جو کسی حسینہ کی آنکھیں،پلکیں اور بھنویںانڈوں کے چھلکوںپر ابھارتا۔یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کام انسانی ہاتھ کررہے ہیں اور وہ بھی معذوروں کے ہاتھ۔ہم یہ پہلے لکھ چکے ہیں کہ ان میں کوئی بھی صحیح سلامت جسامت کا مالک نہ تھا اس لیے ہر ایک کی معذوری کااعادہ ضروری نہیں۔جب یہ تصویر بن جاتی تو شیٹ کو برابر والے فنکار کی طرف بڑھا دیاجاتا جواس پر کسی کیمیکل کا اتنا زوردار اور مسلسل رگڑالگاتا کہ چھلکے کی قدرتی سطح کی موٹائی چوتھائی سے بھی کم رہ جاتی۔اب ذرا تصور کیجیے،چھلکا ہوتا ہی کتنا موٹا ہے کہ اس کا بھی ایک چوتھائی رہ جائے۔پھریہ شیٹ آگے جاتی جہاں اسے نل کے صاف پانی سے (جس کی ٹونٹی کارکن کے سامنے لگی ہوئی تھی)دھویا جاتا اورخشک کرکے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کے آگے بڑھا دیا جاتا۔اب آپ اس شیٹ پر ہاتھ لگا کردیکھیں تو چھلکے کا نام ونشان نہیں ملے گا اور شیٹ پر ایک خوبصورت اور نایاب آرٹ کاشاہکار آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوگا۔سیاہ شیٹ پر انڈے کی سفیدی سے بنے ہوئے ڈیزائن ایسی بہاردکھارہے تھے کہ ان پر سے نگاہ نہیں ہٹتی تھی۔آخری مرحلہ اس شیٹ پر پالش کا تھا جس کے بعد یہ جَگرجَگر چمکنے لگتی۔اگر کسی فنکار کے آگے سیاح زیادہ جمگھٹا لگادیتے تو ایک صاحب جنھوں نے گرم موسم کے باوجود منہ پر مفلر لپیٹ رکھا تھا، نرمی سے انھیں ہٹاتے۔انھوں نے اپنا منہ اس لیے چھپا رکھا تھا کہ ان کا ایک طرف کا جبڑا بم کے ٹکڑے نے اڑادیا تھا۔سیاحوں کا گروپ فیکٹری سے نکل کر ملحقہ ہال میں آیا جو دراصل دکان تھی۔یہاںانڈے کے چھلکے سے بنے ہوئے ایسے ایسے فن پارے نظر آئے کہ تیاری کے تمام مراحل خوددیکھنے کے باوجود آنکھوں پر یقین نہیںآرہا تھا۔ان چھلکوںمیں ہوچی مِنھ بھی سجے ہوئے تھے اور الزبتھ ٹیلر بھی۔دریائوں میںپہاڑوں کے دامن میں کشیتوںکے نظارے بھی تھے اور باغوں میں پھولوں کی کیاریاں بھی۔سیاحوں نے جی کھول کر شاپنگ کی۔Bargaining(مول تول) بھی زور شور سے جاری تھا لیکن لوگ ڈالر دے کر خوش ہورے تھے بلکہ دہری خوشی حاصل کررہے تھے۔ایک تو نادرالوجود فن پاروں کا حصول دوسرے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی جنھوں نے معذوری کو اپنے لیے مجبوری نہیں بنایا۔حد درجہ باعثِ حیرت بات یہ تھی کہ اس دکان کی سیلز گرلز،کیشیر ز،سامان نکالنے والے،پیک کرنے والے،بڑے بڑے ڈبوں کو گاڑیوں تک چھوڑنے والے کارکنوں میں سے کسی کے بھی تمام اعضا سلامت نہ تھے۔دورے کے خاتمے پر ہم نے گائڈ سے اس کی حکومت کے اس اقدام کی تعریف کی تو اس نے کمال بے نیازی سے بتایا’’یہ ایک فیکٹری ہمارے راستے میں پڑ رہی تھی اس لیے میں آپ کو یہاں لے آیا ورنہ ہوچی مِنھ سٹی میں ایسے کئی ایک مراکز ہیں جہاں کسی نہ کسی جسمانی کمی سے متاثرہ افراد کو مختلف فنون میں تربیت دے کر باعزت روزگار کی فراہمی کا بندوبست کیا گیا ہے۔حتٰی کہ آپ کو ایک ہاتھ والے، دونوں ہاتھ والوں سے بھی زیادہ کام کرتے نظر آئیں گے۔‘‘سچ کہاتھا ناسخؔ نے ؎
گر آنکھ ہے تو باطنِ انساں کی دید کر
کیا کیا طلسم دفن ہیں مشتِ غبار میں
٭٭٭٭٭
جنھوں نے مجبوری نہیں بنایامعذوری کو
Apr 30, 2018