سونامی سے ”سونامی پلس“ تک

گزشتہ روز لاہور میں ہر طرف تحریک انصاف کے پرچموں کی بہار تھی، کھلاڑی، خواتین، نوجوان، بوڑھے اور بچوں کی شکل میں مینار پاکستان پر موجود رہے۔ پنجاب کی لیڈر شپ پورے آب و تاب کے ساتھ موجود تھی، چھٹی کا دن تھا، گرمی بھی تھی اور لاہور کی سڑکوں پر ڈی جے بھی چل رہا تھا۔ الغرض سبھی نئے پاکستان کی شمع روشن کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ ایک وقت کے لیے تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے گرمی کی تیز دھوپ میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا چھو کر گزر جائے اور چند لمحوں کا سکون دے جائے، پھر ایسی ہوا چلے کہ دل میں تازگی بھر دے، دل جھوم اُٹھے کہ چلو ملک میں ”تبدیلی“ کی نوید آئی ہے!....
تحریک انصاف کے گزشتہ چند جلسوں اور اس جلسے میں کافی فرق نظر آیا یہ سونامی 2011ءکا پارٹ ٹو تھا، جب سات سال قبل تحریک انصاف اپنا پندرھواں یوم تاسیس منا رہی تھی تو ”سونامی“ آ گیا، لوگ پہلی بار اپنے خاندان کے ساتھ گھروں سے نکلے۔ اس وقت کی برسراقتدار جماعت پیپلز پارٹی سے تنگ عوام سونامی کے ساتھ چل دیے مگر شاطر حکمرانوں نے شطرنج کی ایسی چالیں چلیں کہ سونامی کے پی کے تک محدود ہو کر رہ گیا۔ اُس وقت کی سونامی آج کی سونامی میں فرق یہ ہے کہ اُس وقت تحریک انصاف ان کرپٹ لیڈروں کی چالوں کو بھانپ نہ سکی جبکہ آج وہ پوری طرح باخبر، منظم اور ایک وژن کے ساتھ نظر آرہی ہے۔ اور یہ وژن تحریک انصاف کو مرکز میں حکومت ملنے تک ساتھ رہے گا۔ میں نے گزشتہ 22سالہ دور میں عمران خان کے نشیب و فراز کو بڑے قریب سے دیکھا ہے، ماضی میں کبھی کبھی ایسا لگا جیسے وہ سیاسی سنجیدگی کے قریب سے بھی نہیں گزرے ، لیکن کبھی کبھی تو انہوں نے سیاست کے بڑے بڑے لوگوں کو مات دے کر ثابت کیا کہ وہ ہر میدا ن میں کامیابی کے ساتھ اپنا لوہا منوا سکتے ہیں۔میں پی ٹی آئی کا نمائندہ تو نہیں لیکن ایک عرصے سے دیکھ رہاہوں کہ اب عمران خان کے لیے تنظیمی معاملات کے سینکڑوں مسائل میں بھی کافی کمی آنا شروع ہو گئی ہے اور مران خان 22سالہ جدوجہد کے نتیجے میں اب حکمرانی کی منزل کے قریب آچکے ہیں۔ گزشتہ روز کا جلسہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تمام تنظیمی کمزوریوں کے باوجود تحریک انصاف ملک بھر سے لوگوں کو متحرک اور فعال بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ تادم تحریر تحریک انصاف کے قافلے جی ٹی روڈ، قصور اور ملتان روڈ کے مختلف مقامات پر رواں دواں ہیں۔ لاہور کے تمام داخلی راستے مکمل طور پر جام ہوچکے ہیں، کارکن اپنے قائد کو دیکھنے، سننے اور نئے پاکستان کی اُمنگ لیے میلوں دور سے پیدل روانہ ہو چکے ہیں۔ قافلوں میں جوش وخروش بھی ہے اور قدرے قدرے بدنظمی بھی دیکھنے میں آرہی ہے لیکن ماحول گرم ہے۔
لاہور کے جلسے کے لیے انتظامات کے حوالے سے علیم خان نے اپنی تمام توانائیاں صرف کیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بہت سا بوجھ بھی اُٹھایا اور اس دفعہ ماضی کے بہت سے ساتھی بھی اُن کے ساتھ رہے۔ چوہدری سرور، شفقت محمود، محمود الرشید سمیت شاہ محمود قریشی، اسد عمر، جہانگیر ترین بھی متحرک نظر آئے اور اس بار جماعت میں تنازعات سے بچنے کے لیے کچھ لوگوں نے بڑے دل کا مظاہرہ کیا، اور لوگوں کو وہ سپیس بھی دی جو ان کا حق نہیں تھا۔ میں سمجھتاہوں کہ اگر اس طریقے سے آگے بڑھنے کی جدوجہد کی گئی تو منزل قریب ہے اور کامیاب سفر رواں دواں رہے گااور رہی بات مستقبل میں بھی مل کر ساتھ چلنے کی اور وطن کو کرپٹ حکمرانوں سے پاک کرنے کی تو اس کے لیے ابھی بہت سے کام کرنا باقی ہیں، یہ بات تو یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے۔ کہ لاہور میں ن لیگ کا واحد مقابلہ تحریک انصاف سے ہونے والا ہے۔ اس کے لیے میرے خیال میں تحریک انصاف کو مضبوط حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے لاہور ”فتح“ کرنے کے لےے ایک بڑے منصوبے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اسے ایک ایسے گیم پلان کی ضرورت ہے جو لوگوں کو ایجوکیٹ کرے کہ یہاں 10سال تک کیا ہوتا رہا۔ ن لیگ کے خلاف ریسرچ بیسڈ وائیٹ پیپر جاری کیا جائے جس میں نعرے درج نہ ہوں بلکہ حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ بات کی گئی ہو کہ پانچ سال میں کیا کیا غلطیاں ہوئیں۔ بتایا جائے کہ میٹرو اور اورنج ٹرین کے ڈیڑھ دوسو ارب روپے کے مہنگے منصوبوں سے پنجاب میں تعلیم کا معیار 80فیصد تک چلا جانا تھا۔ بتایا جائے کہ فی الحال اس شہر میں کوئی مثالی سرکاری سکول بھی نہیں جہاں ہم اپنے بچوں کو فخر سے داخل کروا سکیں۔اگر ایسا ہوگیا تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف ن لیگ کو شکست سے دوچار کرے گی۔ اس معرکہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ میرے نزدیک ”نیک ٹو نیک “مقابلہ بھی ن لیگ کیلئے شکست فاش سے کم نہیں۔میرے خیال میں عمران خان کے لیے آئندہ چند ماہ بہت محنت طلب ہیں، اور تحریک انصاف کے لیے پنجاب میں قدم جمانے کا اس سے اچھا موقع ہاتھ نہیں لگ سکتا۔اور عمران خان ایک طویل سفر کر کے اس حیثیت میں آگئے ہیں کہ اب وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ شریف خاندان کے مضبوط گڑھ پنجاب میں اپ سیٹ کرنے کا ان کے پاس اچھا موقع ہے۔عمران اور ان کی پی ٹی آئی کے پاس موقع ہے بشرطیکہ وہ اپنے کارڈ اچھی طرح کھیلیں اور وہی غلطی نہ دھرائیں جو انہوں نے 2013 میں کی تھی۔ 2013 سے کچھ سبق لیتے ہوئے انہوں نے نئے، نوجوان اور صاف ستھرے چہرے کے حامل افراد کو آگے لانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس بار وہ پارٹی ٹکٹوں کا معاملہ خود دیکھیں گے۔اُمید ہے کہ بالکل اسی طرح دیکھیں جس طرح کرپٹ سیاستدانوں کی کرپشن کے خلاف اقدامات کرنے کا تہیہ کیا اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے، آج انہی کی بدولت انصاف ہورہا ہے، اور سر عام ہو رہا ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ احتساب ہو اور سرعام ہو کا نعرہ برسوں پہلے بھی تحریک انصاف ہی نے لگایا تھا۔ یہ انسانی تاریخ کی پہلی سیاسی جماعت ہوگی جو ابھی برسراقتدار نہیں آئی اور اس کے منشور پر عمل درآمد کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ کرپٹ سیاستدان جیل کے پیچھے ہوں گے۔ یہی اس پارٹی کا منشور ہے۔ دو نہیں.... ایک پاکستان کا مطلب ہی یہی ہے کہ یہاں غریب اور امیر میں فرق کیے بغیر آگے بڑھا جائے گا۔ آج پاکستان تحریک انصاف فیصلہ کن تھرڈ فورس کے مرحلہ سے گزر کر ملک کی پہلی فیصلہ کن سیاسی فورس بننے جا رہی ہے۔
آخر میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ تبدیلی نہ آئی ہے اور نہ کبھی آئے گی، انہیں صرف ایک پیغام ہے کہ تبدیلی آئے گی تو ہمارے بچے دنیا بھر میں اپنا سر فخر کے ساتھ، عزت کے ساتھ اُٹھا کر چل سکیں گے ورنہ ہمارا شمار افریقی ممالک جیسے لٹیرے اور دیوالیہ ممالک میں ہونا شروع ہو جائے گا اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تبدیلی آچکی ہے۔ یہ تحریک انصاف کی ٹیم کا کریڈٹ ہے کہ انہوں نے بغیر اقتدار میں آئے وہ کر دکھایا ہے جو لوگ اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی نہیں کر سکتے!

ای پیپر دی نیشن