”جعلی ادویات ۔۔۔ زندگی اور موت کا معاملہ“

پورے ملک اور خصوصی طور پر صوبہ پنجاب میں غیر معیاری اور خاص طور پر جعلی ادویات کا مسئلہ بے حد گھمبیر صورت حال اختیار کرچکا ہے۔ اس ضمن میں بہت سے Scandles منظر عام پر آچکے ہیں جن کا عرصہ پچھلے پانچ سالوں پر محیط ہے جن میں Life saving اور Suprious دوائیاں شامل ہیں۔ اب صوبہ پنجاب میں قائم Drug testing laboratory یعنی ادویات کی جانچ پڑتال کرنے والے ادارے نے بڑی گہرائی میں اور تندہی سے چھوٹے بڑے اور Teriary care یعنی ہسپتالوں میں استعمال ہونے والی ادویات پر تجربات کئے ہیں۔ اور ان تجربات کے جو نتائج برآمد ہوئے ہیں وہ ہوش ربا حد تک پریشان کن ہیں۔ دراصل ہمارے سیاسی لیڈرزاور امرا اول تو ملک میں علاج ہی نہیں کرواتے دوسرے ان کی ادویات غیر ممالک سے آتی ہیں جس کا انہوں نے مکمل انتظام کیا ہوا ہے۔ لیکن عوام الناس کے لیے صور ت حال پیچیدہ ہے ان جعلی ادویات کے تمام اثرات کے زیر اثر عوام آتی ہے۔ جب کہ وزراءاور امراءاس سے ماورا ہیں۔
اس معاملے کا بہت ہی پریشان کن پہلو یہ ہے کہ صوبے میں دستیاب ادویات انسانی استعمال کے قطعی قابل نہیں بلکہ وہ کئی قسم کے بُرے اثرات کا باعث بنتی ہیں۔ جعلی ادویات کی تعداد تقریباً 20 (بیس)فی صد سے بھی تجاوز کرجاتی ہے۔ اس امر سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ صوبے میں کتنی بڑی تعداد میں افراد ان سے متاثر ہورہے ہیں کیونکہ لیبارٹری کی رپورٹ کے مطابق زیادہ تعداد میں انسانی استعمال کے لئے زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہیں۔ اور ان ادویات کاحجم استعمال ہونے والی کل ادویات کا80 فی صد (اسی) ہے۔ اور یہ پنجاب میں ہر فرد اور خاص طور پر بیمار افراد کےلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ان ادویات میں بے حد مہنگی قیمت پر ملنے والی ادویات بھی شامل ہیں جو کہ شفا کی بجائے کئی نئی بیماریوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہ خالصتاً Criminal Act یعنی مجرمانہ فعل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملاوٹ میں ملوث کون ہیں کیا یہ ادویات ساز ادارے ہیں یا صرف جعلی ادویات تیار کرنے والے قاتل ہیں اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ کام جعلی ادویات بنانے والے کررہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہسپتال کی انتظامیہ ان سے ادویات کیوں خریدتی ہیں کیا ان کا اپنا Margin of profit یعنی نفع زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی منطق نظر نہیںآتی۔ اور اگر فرضِ محال یہ بد دیانتی ادویات بنانے والے ادارے کررہے ہیں تو پھر اس کی روک تھام کا کون ذمہ دار ہے؟ جواب صاف اور واضح ہے یہ حکومتی غفلت اور چشم پوشی ہے شاید متعلقہ افراد اور ادارے جن کو جعلی ادویات کی روک تھام کے لئے قائم کیا گیا ہے وہ بھی اس کام میں ملوث ہیں یعنی ان کو اپنا حصہ (حرام) مہیا کردیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حکومت کے اولین فرائض میں شامل نہیں کہ جن افراد کے ووٹوں سے وہ برسر اقتدار آئے ہیں ان کی فلاح اور بہبود کو یقینی بنایا جائے۔ دراصل ہمارے سیاسی رہنما ¶ں کو جوڑ توڑ اور مال و دولت سمیٹنے سے فرصت ملے تو وہ ان اور دیگر مسائل پر دھیان دیں۔
ادویات کو ٹیسٹ کرنے والے، اداروں کی کاوش بے شک قابل تعریف ہے کہ جنہوں نے نہایت ایمانداری اور جانفشانی سے یہ کام سر انجام دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اس Menace کی روک تھام کےلئے بھی اقدامات کی نشاندہی کریں۔ پنجاب کے سینئر ڈاکٹروں کی رائے میں ہماری افسر شاہیBureaucrates اس پورے معاملے اور سازباز میں مکمل طور پر شامل اور ملوث ہیں ۔ باالفاظ دیگر وہ عوام میں موت کو تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ جن ادویات میں بہت زیادہ ملاوٹ پائی گئی وہ کثرت سے استعمال ہونے والی دوائیوں مثلاً Antibiotics اور Veterinary ادویات مےںہے اور عوام ان ہی جانوروں کا گوشت اور دیگر اشیاءمثلا دودھ اور اس سے بنی ہوئی اشیاءکثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں کچھ ادویات بصارت Eyesightکے لیے مضر ہیں۔یہ لوگوں کو اندھا کردیتی ہیں۔ اور Antibiotics جو کہ بیماری میں عام سطح پر بہت زیادہ استعمال ہوتے ہوتی ہیں کو بے اثر بنادیتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرائع ابلاغ ادویات میں ملاوٹ کی لعنت کو بھر پور طریقے سے منظر عام پر لائیں یہ بہت بڑی قومی خدمت ہوگی اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔
قارئین ! اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر سطح پر Easy money یعنی دولت کا حصول ہم سب کی ترجیحات میں اول درجہ رکھتا ہے۔ اور ہوس یا لالچ کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی۔ حدیث پاک ہے کہ "ایک لالچی شخص کو اگر ایک پوری وادی سونے کی مل جائے تو وہ چاہے گا کہ ایک وادی اور مل جائے"۔ اسی طرح قرآن پاک میں فرمان الٰہی ہے۔ "لوگو !تم کو (مال کی )بہت سی طلب اور ہوس نے غافل کردیا یہاں تک کہ تم نے قبریں جادیکھیں۔" (سورة التکاثر) یہ دونوں باتیں ہمارے اوپر صادق آتی ہیں کہ صرف مال اکٹھا کرنے کی خاطر ادویات جو کہ لوگوں کی زندگی اور بقا کیلئے لازمی ہیں۔ ہم ان میںملاوٹ کرنے سے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ یہ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن