میرے کچھ دوست کہتے ہیں کہ میرا لہجہ دن بدن تلخ ہوتا جا رہا ہے۔ میرا قلم جو ہمیشہ مثبت پہلوں کو سامنے لایا کرتا تھا ۔ اب منفی سوچوں کی طرف جانے لگا ہے۔ میرا جواب بالکل آسان ہوتا ہے۔ میں ایک جیتا جاگتا انسان ہوں۔ مجھے اب تصویر کا دوسرا رخ بالکل صاف صاف نظر آنے لگا ہے۔ مجھے اب یہ بات بڑی حد تک درست معلوم ہے کہ اگر یہ جمہوری سفر جاری رہا۔ اور مقررہ وقت پر الیکشن ہو گئے۔ تو ووٹ ایک بار پھر نون لیگ کو ہی پڑے گا۔ عمران خان کے جلسے چاہے جتنے بڑے بڑے کیوں نہ ہو جائیں۔ ابھی خان کی جماعت زمینی حقیقت سے بہت دور ہے۔ پورے ملک سے بندے اکٹھے کر کے شہر کے شہر بند کروا کے جلسے کرنے سے مزدور کی ’دیہاڑی‘ تو ٹوٹ سکتی ہے۔ مزدور کا ووٹ حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آج یکم مئی ہے ساری دنیا میں مزدور کا دن منایا جا رہا ہے۔ لیکن اس ملک میں آج بھی بہت سے مزدور دیہاڑی پہ گئے ہوئے ہیں۔ بہت سے مزدور چوکوں میں اس آس پہ بیٹھے ہیں کہ آج دفاتر میں چٹھی ہے کیا پتہ کسی صاحب کے گھر میں کوئی کام نکل آئے ، جس سے اچھی مزدوری مل جا ئے گی۔ ہاں سڑکوں پہ اور ٹھنڈے ہالوں میں آج کے دن کچھ لوگ مزدوروں کے حق میں بات ضرور کر رہے ہوں گے ۔ ان بات کرنے والوں میں بہت سوں نے بہت سے مزدوروںکی بہت سی دیہاڑیاں بھی ماری ہوں گی۔ بہت سی فیکٹریوں اور کارخانوں میں بھی آج مزدور اس خوشی کے ساتھ کام کر رہے ہوں گے کہ آج کی دیہاڑی ڈبل ملے گی۔ شام کو کچھ ترقی پسند لوگ شمعیں بھی جلاتے نظر آسکتے ہیں۔ مگراس سب کے باوجود مزدور کے بچوں کا پیٹ اکثر خالی رہ جاتا ہے۔ مزدور کی بیٹی کی آنکھیں اکثر سوالی رہ جاتی ہیں۔ باپ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے خواب لیے خود کو روز بیچتا ہے۔کبھی اپنی انا ،کبھی اپنا غرور تو کبھی اپنی عزت بیچتا ہے۔ جس کے گھر کا خرچہ اس کی آمدن سے کہیں زیادہ ہو ، اسے کیا معلوم ووٹ کسے کہتے ہیں۔ حقِ رائے دہی کس بلا کا نام ہے۔ اسے کیا معلوم وہ ووٹ کسے دینے جائے گا۔ اور اس کے ووٹ سے کسی اورکو کامیابی کا پروانہ مل جائے گا۔ مزدور کی سوچ صرف گھر کے بل بھرنے تک محدود ہو کے رہ جاتی ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ ایک مزدور نہیں جانتا ہے کہ اس کے ووٹ سے اسمبلی پہنچ جانے والے کی شان و شوکت کیوں بڑھ رہی ہے۔ ملک کے بڑے سیاست دان اپنی اولادیں اور کاروبار بیرون ملک کیوں منتقل کرتے جا رہے ہیں۔ مزدور کو سب پتہ ہے۔ مگر وہ پھر بھی بریانی کی پلیٹ پہ اپنا ووٹ کاسٹ کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی عزت بار بار مجروح کی جاتی ہے۔کبھی اس کے ووٹ سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو پھانسی چڑھا دیا جاتا ہے۔ تو کبھی اس کے ووٹ سے منتخب ہونے والوں کو ملک سے بیدخل کر دیا جاتا ہے۔ بہت بار ، بلکہ بار بار اس کے ووٹ سے اقتدار حاصل کرنے والے اس ملک کی بجائے دوسرے ملکوں کی شہریت اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ جو راہنما اس ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے کرتے ہیں ان کی اپنی رسیاں بیرون ملک سے ہلائی جا رہی ہوتی ہیں۔ مزدور دیکھ رہا ہوتا ہے۔کہ اس سے ہر طرح کا ٹیکس وصول کر لیا جاتا ہے۔ بیٹی کی شادی پہ لیا قرض واپس نہ کرنے پر مزدور کے گھر کو ہتھیا لیا جاتا ہے۔ مگر صاحبان اقتدار بڑی ہوشیاری سے نہ صرف ٹیکسوں سے بچ نکلتے ہیں۔ بلکہ بینکوں سے لیے بڑے بڑے قرضے معاف بھی کرا لیا کرتے ہیں۔ مزدور کی تقدیر بدلنے والا مزدور کو بہترین صحت کی سہولتیں دینے کے نعرے لگوانے والا اپنی صحت کے لیے بدیسی ہسپتالوں میں نظر آتا ہے تو مزدور کی بے حسی اور بڑھ جاتی ہے ۔…
دن منانے سے کچھ نہیں ہوتا ، بوجھ کندھوں سے کم کرو صاحب …
مزدور کے بارے میں یہ سوچنا کہ مزدور کسے کہتے ہیں۔ مزدور کے معنی کیا ہیں؟ ایک طرف یہ ایک تکلیف دہ بات ہے مگر لفظ مزدور سوال کا جواب ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ یہ لفظ لکھتے ہوئے مجھے خاقان حیدر غازی کی ایک پنجابی نظم کے کچھ بند یاد آ رہے ہیں ۔ ؎
کچے گھراں دیاں کڑیاں دے ، ہتھاں دیاں لکیراں وچ
پھسی مَیل بنا رملی قسمت دا حال دسدی اے
مزدور دن منانے کی بجائے اگر مزدور کے حالات بدلنے کی طرف توجہ دی جائے تو بہت بہتری آسکتی ہے۔ میرے ملک کا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کا ہر نوجوان اچھی تعلیم کے بعد بہتر روز گار ، ایک کار ، ایک خوبصورت گھر اور اس گھر میں ایک خوبصورت بیوی کا حصول ہی کامیابی سمجھتا ہے۔ تعلیم حاصل کرتے وقت ہی نوجوان کے ذہن میں اچھی نوکری حاصل کرنے کی خواہش پیدا کردی جاتی ہے۔ وہ کم تنخواہ میں کام نہیں کرتا۔ اچھی نوکری ملتی نہیں ہے۔ بھائی اچھی نوکری کہاں سے ملے گی۔ اپنی انڈسٹری تو ہم خود تباہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ملک میں نئی فیکڑیاں لگانے کا رواج اب کم ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف حکومتوں کے بہت سے ادارے نئے کارخانوں کے شروع کیے جانے میں رکاوٹ بنتے ہیں تو دوسری طرف آج کا نوجوان نئی فیکٹری ، نیا کارخانہ لگانا چاہتا ہی نہیں چاہتا ہے ۔کیونکہ کوئی بھی نیا کام بہت زیادہ محنت کا تقاضہ کرتا ہے ۔اس لیے نوجوان اپنا کام کرنے کی بجائے نوکری ڈھونڈتے ہیں۔ وہ مالک بن کے جو عزت کما سکتے ہیں وہ نوکر بن کے اپنا انا کا ہمیشہ کے لیے قربان کر دیتے ہیں ۔
سیاسی حکومت نے جیسے تیسے کر کے اپنی آئینی مدت پانچ سال پورے کر ہی لیے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ دونوں جماعتوں نے بلاشبہ اقتدار کے مسلسل پانچ سال پورے ضرور کیے ہیں۔مگر اپنی حکومتوں کو برقرار رکھنے کے لیے ان دونوں جماعتوں کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔ اس حقیقت سے سبھی آگاہ ہوں گے۔ستر سال سے اوپر ہو چلے ہیں۔ مگر ہم ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے کہ اس ملک کو کس نے کیسے چلانا ہے۔ مزدور کے کندھوں سے اس کے گھر کے اخراجات کا بوجھ جب تک کم نہیں کیا جاتا ہے۔ اس سے بریانی پہ ووٹ کاسٹ کرنے کا گلہ نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک ایک مزدور کو عزت نہیں دی جاتی ۔کسی بھی فیکٹری ،کارخانے یا شاپنگ مالز میں بہتری نہیں آسکتی۔ جن کے دم سے لوگ عیش و عشرت کی زندگیاں گزار رہے ہیں ان کو عزت دیں گے تو انہیں عزت ملے گی ۔