پارلیمنٹ میں وفاقی بجٹ برائے2018-19ء پیش کرنے سے چند گھنٹے قبل تین وزرائے مملکت مریم اورنگ زیب، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور انوشہ رحمن کو ترقی دے کر وفاقی وزیر جب کہ لیلیٰ خان کو وزیر مملکت بنا دیا گیا اس پرطرفہ تماشا یہ کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل کو بھی وفاقی وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ مفتاح اسماعیل کو وفاقی وزیر خزانہ بنانے کے لئے حکومت کو آئین کے آرٹیکل 92(1) اور 91کی ذیلی دفعہ 9 کا سہارا لینا پڑا۔ اگرچہ آئین میں ایک غیر منتخب شخص کو 6ماہ کے لئے وزیر بنانے کی گنجائش موجود ہے لیکن پارلیمانی تاریخ میں اس ’’ناپسندیدہ‘‘ آرٹیکل کا بہت کم استعمال کیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اس حد تک ’’قحط الرجال‘‘ کیوں پیدا ہو گیا کہ محمد اسحق ڈار کو ’’جلاوطنی‘‘ کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرنے کے بعد حکومت کے پاس کوئی ایسا منتخب رکن ہی نہیں جووزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کا اہل ہو جس کی وجہ سے ایک’’ غیر منتخب ‘‘رکن کو عبوری مدت کے لئے وزیر بنانا پڑا اور پھر اس فیصلے پر اسے اپوزیشن کی جانب سے ہنگامہ آرائی اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح تین وزرائے مملکت کو حکومت کے خاتمہ سے ایک ماہ قبل ترقی دے کر وفاقی وزیر بنانے کی وجہ سمجھ نہیں آئی کیونکہ یہ تینوں وزرائے مملکت کی حیثیت سے اپنی وزارتوں کے انچارچ وزیر بھی تھے ۔ بڑی سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ تینوں وزرائے مملکت کو ان کی اعلیٰ کارکردگی پر بطور انعام وفاقی وزیر بنایا گیا ہے جب سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید ’’ڈان لیکس‘‘ کی بھینٹ چڑھ گئے توان کی جگہ میاں نواز شریف کی نظر انتخاب مریم اورنگ زیب پر پڑی تو ان کو وفاقی وزیر اطلاعات کی بجا ئے وزیر مملکت بنا دیا گیا، انہیں پارلیمانی سیکریٹری برائے داخلہ سے ترقی دے کر وزیر مملکت بنایا گیا تھا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے مریم اورنگ زیب نے ایک سیاسی خانوادے میں آنکھ کھولی ہے ان کی ماں بیگم طاہرہ اورنگ زیب اور خالہ بیگم نجمہ حمید کا شمار ملک کی معروف پارلیمنٹیرینز میں ہوتا ہے لیکن اس نے اپنے لئے سماجی بہبود کا میدان منتخب کیا ۔ بیگم کلثوم نواز ’’گوہر شناس ‘‘ خاتون ہیں انہوں نے مریم اورنگ زیب کو پنجاب اسمبلی سے خواتین کی مخصوص نشستوں پر ٹکٹ کے لئے درخواست دینے کی ہدایت کر دی لیکن بوجوہ وہ صوبائی نشست پر ٹکٹ کی اہل نہ پائیں تو بیگم کلثوم نواز انہیں قومی اسمبلی میں لے آئیں جہاں چند دنوں میں ہی مسلم لیگی قیادت ان کی قابلیت کی معترف ہو گئی انہوں نے مریم نواز کی قیادت میں قائم سوشل میڈیا سیل میں شاندار کام کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا پھر ان کے لئے ترقی کے راستے کھلتے گئے ۔ وزارت اطلاعات کا منصب پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہوتا ہے حکومت کا ترجمان ہونے کے ناطے جہاں اسے ہر وقت چوکنا رہنا ہوتا ہے وہاں اس منصب پر معمولی لغزش بھی برداشت نہیں کی جاتی شاید ہی کوئی وزیر اطلاعات ہوجس کی کارکردگی سے وزیراعظم خوش ہو اور وہ پوری مدت کے لئے وزیر اطلاعات کے منصب پر فائز رہا ہو۔ وزیراعظم اپنے سیاسی مخالفین کی تنقید سے زچ ہو کر سارا غصہ اپنے وزیر اطلاعات پر نکال دیتا ہے جب اس کی برداشت
جواب دے دیتی ہے تو اپنا وزیر اطلاعات ہی تبدیل کر دیتا ہے لیکن یہ مریم اورنگ زیب کا کمال تھا یا اپنی والدہ بیگم طاہرہ اورنگ زیب اور خالہ سینیٹر نجمہ حمید کی سیاسی تربیت، مریم اورنگ زیب نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو مایوس نہیں کیا۔ عمران خان ہوں یا آصف علی زرداری یا کوئی اور، مریم اورنگ زیب اپنے سیاسی مخالفین پر ’’شیرنی‘‘ کی طرح جھپٹنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں جس کے باعث انہیں مسلم لیگ (ن) کی ’’شیرنی‘‘ کا خطاب دیا گیا ہے ۔ سیاسی حلقوں میں ابتدائی ایام میں مریم اورنگ زیب کو وزیر بنانے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور کہا گیا کہ وہ کون سی خوبی ہے جس کے باعث دو پارلیمنٹیرینز بیگم نجمہ حمید اور بیگم طاہرہ اورنگ زیب کے بعد اسی گھرسے ایک اور وزیر مملکت بنا دیا گیا لیکن بہت جلد نواز شریف کے سیاسی مخالفین کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ وزارت اطلاعات کا قلمدان جس خاتون کو سونپا گیا ہے وہ نہ صرف اس کی اہل ہیں بلکہ وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا بھرپور انداز میں دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ میں نے کم وبیش نصف صدی کی صحافت میں متعدد وزرائے اطلاعات بھگتائے ہیں کئی ایک کا نام بھی کسی کو یاد نہیں ہو گا۔ اس منصب پر
مولانا کوثر نیازی، راجہ محمد ظفرالحق جیسے بلند پایہ وزرائے اطلاعات رہے، شیخ رشید احمد کو بھی وزارت اطلاعات نے برداشت کیا پرویز رشید ڈان لیکس کی قربان گاہ پر چڑھ گئے لیکن جب سے مریم اورنگ زیب نے وزارت اطلاعات کامنصب سنبھالا انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے موقف کو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر پورے زور شور سے پیش کیا ہے بلکہ میاں نواز شریف کے سیاسی مخالفین کا جارحانہ انداز میں تعاقب کر کے ان کو پسپائی پر مجبور کیا ہے۔ ان کے اس جارحانہ انداز سے زچ ہو کر پاکستان ٹیلی ویژن کی ایک ’’ملازمہ‘‘ نے سوشل میڈیا پر مریم اورنگ زیب سے عجیب انداز میں استفسار کیا کہ ’’کیا’’ وہ نواز شریف کی ترجمان ہیں یا حکومت کی‘‘۔ پاکستان میں جب سے گالی گلوچ کی سیاست نے زور پکڑا ہے اس میں خاتون وزیر کے لئے کام کرنا خاصا مشکل ہو گیا ہے لیکن مریم اورنگ زیب نے اس میں بھی اپنے لئے راستہ نکالا ہے وہ اپنے سیاسی مخالفین کو برجستہ جواب دے کر پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں وہ رات گئے تک نواز شریف کے مخالفین کی الزام تراشی کا بھرپور جواب دیتی رہتی ہیں۔ گو ان پر مریم نواز کی بڑی چھاپ ہے اور وہ ان کے اعتماد پر بھی پورا اتری ہیں لیکن ان کو جتنے عرصہ کے لئے وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان ملا ہے انہیں اپنے نقش چھوڑنے کا موقع ملا ہے۔ موجودہ حکومت کی مدت 31 مئی2018ء کو ختم ہو رہی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مریم اورنگ زیب کی اعلیٰ کارکردگی پر وفاقی وزیر بنانے کا انعام دیا ہے۔ وفاقی وزیر بنائے جانے کے بعد مریم اورنگ زیب قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں آئیں تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے ’’سیاسی استاد‘‘ چوہدری نثار علی خان سے ’’آشیر باد‘‘ حاصل کی اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبد القادر بلوچ اور مشاہد اللہ خان نے شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ دوسری اہم سیاسی شخصیت ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کی ہے جنہوں نے دنوں میں سیاسی ترقی کے مراحل طے کئے ہیں گو کہ وہ بھی مریم نواز کی سوشل میڈیا کے اہم رکن ہیں انہوں نے پچھلے پانچ سال کے دوران ہر محاذ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا پر مسلم لیگ(ن) کا دفاع کر کے مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ گو وہ وزیر مملکت برائے کیڈ بنائے گئے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ انچارج وزیر تھے۔ دھیما مزاج رکھنے والے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری الیکٹرانک میڈیا پر سیاسی مخالفین کی تنقید کو غیر موثر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں شنید ہے انہیں جہاں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وفاقی وزیر بنایا ہے وہاں انہیں 2018ء کے انتخابات میں وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کے دو انتخابی حلقوں این اے 52 اور 53 سے پارٹی ٹکٹ سے نوازا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کا شمار مسلم لیگ (ن) کے ان رہنمائوں میں ہوتا ہے جو پچھلے 6ماہ سے زائد عرصہ سے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے ساتھ احتساب عدالت میں کھڑے ہیں ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ انجم عقیل کا شمار ان مسلم لیگی رہنمائوں میں ہوتا ہے جو ہر پیشی پر میاں نواز شریف کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہوتے ہیں وہ بھی میاں نواز شریف سے انعام کے طلب گار ہیں۔ اسی طرح تیسری شخصیت انوشہ رحمن کی ہے جنہوں نے وزیر مملکت کی حیثیت سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا چارج سنبھالا۔ بنیادی طور وہ ایک قانون دان ہیں اس ناطے ان کا انتخابی اصلاحات کے قانون کی تیاری میں بڑاعمل دخل ہے یہی وجہ ہے کہ جب اس قانون میں پائے جانے والے سقم سامنے آئے تو ان پر بھی نزلہ گرنے لگا لیکن وہ بال بال بچ گئیں بہرحال انہیں بھی وفاقی وزیر بنا کر ان کی ٹیکنالوجی کے لئے خدمات کا اعتراف کیا گیا وہ بھی سیاسی افق پر فرنٹ فٹ پر کھیلتی رہی ہیں لیکن ’’گرم پانیوں‘‘ میں آنے کی وجہ سے کچھ عرصہ کے لئے پس منظر میں چلی گئیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ان کو تلاش کر ہی لیا اور وفاقی وزیر کے منصب پر بٹھا دیا۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ رہا ہوں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے مختلف محاذوں پر جہاں کامیابیاں حاصل کی ہیں وہاں اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کو ’’دوست اور دشمن‘‘ کی تمیز نہیں اسے اس بات کا فرق بھی معلوم نہیں، کون اس کا نظریاتی دوست ہے اور کون دشمن۔ میاں نواز شریف اور ان کے وزراء ’’سراب‘‘ کے پیچھے دوڑتے رہے۔ سرکاری ذرائع ابلاغ کے اداروں میں ایک فوج بیٹھی رہی جونواز شریف کے ’’بیانیہ‘‘ کی ہی قائل نہیں جو ان کے نظریے سے اتفاق نہیں کرتی۔ پانچ سال تک مسلم لیگ (ن) کے وزرائے اطلاعات سے اس موضوع پر ڈائیلاگ رہا جو لوگ سرے سے اس کے نظریے سے اتفاق نہیں کرتے وہ اس کا پیغام کیوں کر عام لوگوں تک موثر طور پہنچائیں گے۔!
مسلم لیگ (ن) کی ’’شیرنی‘‘ کی اعلیٰ کارکردگی کا اعتراف
Apr 30, 2018