جب سے ہم نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو پی ٹی آئی کے ہم پلّہ قرار دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ دونوں کی سیاست بھی تیسری پارٹی کی مرہونِ منت ہے۔ تینوں پارٹیوں کے دوستوں نے ہمیں ہٹ لسٹ پر رکھ لیا ہے اور اپنی اپنی پارٹی کے حق میں ای میلز کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ یہ دراصل ہمارے موقف کی تائید ہی ہے مگر ہر پارٹی کے ورکر کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے حق میں ای میل لگائے۔ سو ہم سب دوستوں کو ویلکم کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ای میل لگائیں اور ہمارے موقف کی حمایت کریں۔ شکریہ دوستو!
کل ہی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ سابق چیف جسٹس کا حکم غیر قانونی ہے کہ جس میں موبائل کمپنیوں کو منع کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے بغیر پوچھے ٹیکس لاگو نہ کریں۔ سپریم کورٹ نے قرار دیاہے کہ اسے یہ اختیار نہیں کہ وہ ایسا آرڈر پاس کرے۔ دراصل یہ قانونی معاملہ ہے اور اس پر سپریم کورٹ نے حالیہ فیصلہ اسی کی روشنی میں دیا ہے جبکہ سابق چیف جسٹس نے اپنا آرڈر جو دیا تھا وہ ازخود نوٹس کے قانون کے تحت دیا تھا۔ جس پر موبائل کمپنیوں نے اپیل کی تھی کہ ملکی قانون کے تحت سپریم کورٹ کو ایسا فیصلہ دینے کا اختیار نہ ہے۔ یہ قانونی بحث ہے اور اس کا قانون کے تحت ہی فیصلہ ہونا چاہیے جو ہوا اور آئندہ بھی فیصلے ایسے ہی آنے چاہئیں کہ سپریم کورٹ کو ملکی قوانین کے تحت ہی فیصلے دینے چاہئیں کہ آیا ملکی قوانین اس کو باختیار بناتے ہیں یا نہیں۔ازخود نوٹس کا قانون دیگر قوانین سے متصادم تو نہیں! اس کا بھی سپریم کورٹ ایک ہی بار جائزہ لے کر فیصلہ کر دے تاکہ روز روز کی بحث ختم ہو کہ ازخود نوٹس کا قانون بھی بہرحال قانون ہے جس کے تحت چیف جسٹس کو بااختیار بنایا گیا کہ وہ اس کے تحت معاملات کا نوٹس لے کہ عوام کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو۔ ہر قوانین کا بہرحال اطلاق قوانین کے ادارے نے ہی کرنا ہے۔ ملکی لیول پر سپریم کورٹ ہی ایسا ادارہ ہے جس نے یہ طے کرنا ہے کہ کونسا قانون کس کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ عوام پر ٹیکس لاگو کرے اور متصادم قوانین میں سے بھی جائز قوانین کا فیصلہ اسی ادارے نے کرنا ہے۔پچھلے دنوں امریکہ سے شاعر دوست نعیم کوہلی تشریف لائے تو انھوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ عہدِ حاضر کے فعال ترین اور بزرگ ترین شاعر ظفر اقبال سے ملنا ہے۔ چنانچہ ظفر اقبال سے ٹیلی فونک اجازت طلب کی گئی جو انھوں نے بخوشی عنایت فرمائی۔ عہدِ حاضر کے ہی ایک اور سینئر ادیب خواجہ محمد زکریا سے رابطہ ہوا تو انھوں نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا۔ چنانچہ راقم الحروف جو کہ ظفر اقبال کی نئی قیام گاہ کے راستے کا جاننے والا تھا۔ دونوں مہمان ادیبوں کو لے کر جناب ظفر اقبال کی رہائش گاہ جو کہ بیدیاں روڈ پر واقع ایک فارم ہائوس میں ہے جو ان کے فرزند آفتاب اقبال کی ملکیت ہے پہنچے تو جناب آفتاب اقبال نے گیٹ پر استقبال کیا اور پھر جناب ظفراقبال صاحب کے کمر ے میں پہنچے جو واقعی ایک فعال ادیب اور شاعر کا کمرہ تھا۔ ہر طرف کتابیں اور کالم لکھنے کا ماحول تھا۔ تازہ پھلوں کے جوس سے شروع ہونے والی یہ نشست جس کا انداز ادبی تھا، شروع ہوئی تو ادبی گپ شپ شام تک جاری رہی اور نئی کتابوں کے تذکرے اور اس پر اپنی اپنی رائے سے بات شروع ہوئی۔افضال نویدؔ کا ضخیم مجموعہ کلام ’’مجھ پر وجود آیا ہوا‘‘ موضوع تھا جس پر جناب ظفر اقبال نے دو اقساط پر مبنی کالم بھی لکھا ہے اور اس کی خوب خبر لی ہے کہ شاعر نے شاید ہی کسی غزل میں کوئی قافیہ چھوڑا ہو۔ اس طرح جدید غزل باقاعدہ قافیہ سچائی کی صورت نظر آتی ہے مگر ایک ایڈواٹیج پر سب متفق تھے وہ شاعر کا وفورِ بیان تھا کہ شاعر نے جدید اردو غزل میں نئے نئے معانی دریافت کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے مگر کاش وہ الجھائو کا شکار نہ ہوتے اور قارئین کی سطح پر ہی رہتے۔ باتوں باتوں میں ہی چائے کا وقت ہو گیا اور چائے کے تکلّف میں مقامی برفی کا ذائقہ ابھر کے سامنے آیا کہ برفی میں خالص دودھ کا بنیادی مسئلہ یوں حل ہوا کہ وہاں پر دودھ میں ملاوٹ کی گنجائش نہیں چنانچہ برفی کو شاعری پر ترجیح مل گئی۔ بعدازاں فوٹوگرافی کی محفل ہوئی اور شام سے پہلے ہی اجازت طلب کی گئی کہ بیدیاں سے واپسی بھی شام سے پہلے ضروری تھی۔
اگلے دن بُک ہوم پر بھی ایسی ہی نشست جمی جس کے شرکاء میں ظفراقبال نہیں تھے اور نئے ادبی پرچوں کا جائزہ لیا گیا۔ ’’بیاض‘‘، ’’نمود‘‘، ’’دنیازاد‘‘ اور پھر ’’باراں ماہ‘‘ میں چھپے تراجم پر زیادہ توجہ دی گئی اور ’’بیاض‘‘ میں شخصیات پر چھپے مضامین خاصے کی چیز قرار دیئے گئے جبکہ ’’باراں ماہ‘‘ میں اس دور میں لکھی جانے والی پنجابی نظموں کے انتخاب نے اس مجموعے کو چار چاند لگائے ہیں۔ ’’نمود‘‘ میں شائع ہونے والی پرانی تصویروں نے ادبی تاریخ کو بیان کیا ہے اور اس حوالے سے تحریریں بھی ادبی تاریخ کو بیان کرتی ہیں۔اب کتابیں چھاپنے والے اداروں نے بھی ادبی مراکز کی حیثیت اختیار کر لی ہے جس کے اپنے فوائد ہیں کہ دن ہی دن میں آپ اپنے پسندیدہ ادیب کو تلاش کرکے اس سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے شام یا شام کے کھلنے والے کسی ادبی ریستوران کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ چائے اور بسکٹ کا خرچہ بھی ادارے کے ذمّے اور ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ادیب اپنی تخلیقات جس ادبی پرچے کو دینا چاہیں اسے دے سکتے ہیں کہ اب ادبی کتابیں چھاپنے والے ہی ادبی پرچوں کے اصل مالکان ہوتے ہیں۔