ملکی معیشت شدید بدحالی کاشکار ہے جس کی وجہ سے غربت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی وجہ وسائل کی کمی ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے لیڈرز کی نااہلی ، بد عنوانی اور مال و دولت کی ہوس ہے۔ الیکشن کے سلسلے میں سب امیدواروں کے اثاثوں کی فہرست سامنے آئی۔ جن میں تقریباً 99(ننانوے)افراد کھرب اور ارب پتی ہیں۔ یہ تو صرف وہ مال و دولت ہے جو ظاہر کی گئی ہے حقیقت میں ان کے پاس اس سے کہیں زیادہ دولت موجود ہے جس کو چھپایا ہوا ہے۔ یا وہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جمع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ PSES ہر ماہ 62(باسٹھ)بلین روپے ماہانہ کے نقصانات میں جارہے ہیں۔ یعنی روزانہ 2 (دو)ملین سالانہ کے گھاٹے میں جارہے ہیں۔نتیجتاً ہمیں آئی ایم ایف سے بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ جو ہمیں بلیک میل کرتے ہیں۔ آخر یہ پیسہ کس کا ہے اور اس نقصان کا کون ذمہ دار ہے۔ پی ایم ایل (ن) کے لیڈرز اپنے پنج سالہ کارناموں کے جو بلند و بالا دعوے کرتے رہے وہ منافقت اور سراسر جھوٹ پر مبنی ہیں۔ان کے کشکول توڑنے کے دعوے صرف با تو ں کی حد تک محدود رہے اور بیچا ری عوام کو قرضوں کے بو جھ تلے دفن کر کے اپنی تجوریا ں بھرتے رہے ۔آئی ایم ایف سے حکمرا ن قرضہ تو لے لیتے ہیں مگر اس کا خمیا زہ ہما ری آ نیوالی نسلو ں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
ہم نے 1958ء میں پہلی دفعہ آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اْس وقت 1ڈالر 3روپے کا تھا جو 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کی بیرونی امداد چند ماہ کے لیے بند ہونے کی وجہ سے بڑھ کر 7روپے تک چلا گیا، لیکن معاشی حالات قدرے مضبوط ہی تھے اور تاریخ گواہ ہے کہ 1972ء تک ہم قرضوں کی ادائیگی کرسکتے تھے۔ سود کیساتھ اصل زر بھی واپس کرنے کی پوزیشن میں تھے۔
1973ء میں بھٹو کے دور حکومت میں چونکہ بھٹو مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی وجہ سے خاصے دبائو کا شکار تھے اس لیے انہوں نے قرضوں پر زیادہ اکتفاء نہ کیا اور اپنے دور اقتدار میں محض 0.3ڈالر ہی بیرونی قرض لیا، پھر 1980 میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں 2 ارب ڈالر کا لیا گیا قرض اسی دور میں واپس کیا گیا۔ پھر1988 ء سے جمہوریت کا ’’سنہری‘‘دور محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے سے شروع ہوتا ہے ، جب ڈالر 18روپے کا تھا۔ اور اسی سال دسمبر1988ء میں محترمہ بے نظیر کی قیادت میں عالمی اداروں سے قرض کے دو پروگرام حاصل کیے گئے جو 1990 اور 1992 میں ختم ہوئے۔ ان پروگراموں کے ختم ہونے سے مراد یہ کہ قرض واپس کرنے کی مدت ختم ہوئی مگر قرض واپس نہ کیا گیا، اسی طرح نومبر 1990ء میں نواز شریف کا پہلا دور حکومت شروع ہوا، انہوں نے بھی 1993ء میں ایک ارب ڈالر کے قریب بیرونی قرض لیا۔
1994میں محترمہ کے دوسرے دور حکومت میں آئی ایم ایف کا پھر در کھٹکھٹایاگیا، یہ وہ دور تھا جب قرض واپس کرنے کے بجائے بین الاقوامی اداروں کے چنگل میں پاکستان کے پھنسنے کا آغاز ہوچکا تھا۔ اسی ڈگر پردونوں مذکورہ جماعتوں نے آئی ایم ایف، ایشائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک سے 1995 سے 1999 تک 3پروگرام لئے جووقت سے پہلے ہی فلاپ ہوگئے۔ اوراس طرح1999ء تک پاکستان پر بیرونی قرض کا کل حجم 39ارب ڈالر تک جا پہنچا یعنی پاکستان سود کی ادائیگی کے قابل بھی نہیں تھا یا یوں کہہ لیں کہ ڈیفالٹ اور دیوالیہ کے قریب تھا۔ رہی سہی کسر 1999ء میں جنرل مشرف کے مارشل لاء نے نکال دی جب مارشل لاء کی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں اور آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کے لیے قرض دینے کے دروازے بند کردیے۔ 9/11کے واقعہ کے بعد پاکستان پر پابندیوں کا خاتمہ ہوا۔ 1999ء اور2000ء کے اقتصادی جائزے کے مطابق جنرل مشرف نے پیرس کلب کے ساتھ معاہدہ کیا، کنسورشیم کو قرضوں کی ری شیڈولنگ پر راضی کرلیا۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ 2008ء میں پاکستان پر قرضوں کا بوجھ کم ہوکر 34ارب ڈالر رہ گیا۔ اْس وقت ’’منصوبہ 2020ء ‘‘بھی بنایا گیا جس کے مطابق پاکستان 2020ء تک ملک کے قرضے چکا دے گا، 2000ء سے 2008ء تک پاکستانی کرنسی مستحکم رہی۔ 1999ء میں 52روپے کا ڈالر تھا۔ نو سالوں میں 52اور 62روپے کے درمیان ہی رہا۔
2008ء سے 2013ء تک پیپلزپارٹی نے پاکستان کو 25 ارب ڈالر کا مقروض کیا۔ اس کے بعد 2013ء میں ن لیگ کا دور شروع ہوا جس میں بیرونی قرضہ 59 ارب ڈالر سے 93 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ صرف جولائی 2016ء سے جنوری 2017ء کے سات ماہ میں 4.6ارب ڈالر کے نئے قرضے لیے گئے۔ اس2.3 ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر سکوک بانڈ کی فروخت سے حاصل کیے گئے۔ اس بانڈ کو فروخت کرنے کے لیے لاہور اسلام آباد موٹر وے کو ضمانت کے طور پر گروی رکھوایا گیا۔ جبکہ اگلے مرحلوں میں دیگر موٹر وے سمیت، ملک کے تمام ریڈیو اسٹیشن اور اہم عمارتیں عالمی منڈی میں گروی رکھوائی گئیں تاکہ پاکستان قرض کی ’’نعمت‘‘ سے استفادہ حاصل کرسکے۔ یوں ن لیگ نے پانچ سال کے دوران پاکستان کو 34 ارب ڈالر کا مقروض کیا۔ ان دونوں جماعتوں نے مجموعی طور پر پاکستان کو 59 ارب ڈالر کا مقروض کیا۔ جب کہ اس سے پہلے کے 60 سالوں میں پاکستان کل 34 ارب ڈالر کا مقروض تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کا مقامی قرض، بیرون قرض سے زیادہ ہے۔ مشرف دور سے پہلے تک یہ قرضہ 3ہزار ارب روپے تھے جو آج بڑھ کر 20ہزار ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آکر تقریباً 6ہزارارب روپے کے اندرونی قرضے لیے جبکہ ن لیگ نے پانچ سالوں میں 9ہزار ارب روپے کے قرضے لیے۔ اسی طرح مشرف دور میں ہر پاکستانی 40ہزار روپے کا مقروض تھا، پیپلزپارٹی کے دور میں 80ہزار روپے کا ، ن لیگ دور میں ڈیڑھ لاکھ روپے اور آج پونے دو لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔انڈسٹری اور انرجی کے بحرا نو ں نے رہی سہی کسر پو ری کر دی سو چنے کی بات ہے کہ 2019-20 وہ سال ہے جب ہم نے سابقہ قرض واپس کرنے ہیں۔ جس کے لیے سابقہ حکومتیں اعلان کیا کرتی تھیں کہ ہم نے لانگ ٹرم قرضے حاصل کرلیے ہیں۔ یہ لانگ ٹرم کی مدت اسی سال ختم بھی ہورہی ہے۔ لہٰذا تمام اعداد و شمار قارئین کے سامنے ہیں اور فیصلہ بھی انہی کو کرنا ہے کہ ملک کو کس نے کتنا نقصان پہنچایا اور موجودہ حکومت کا اس کھلواڑ میں کتنا حصہ ہے۔ اوربحیثیت پاکستانی یہ جاننے کا حق ضرور رکھتا ہوں کہ میرے ملک کی بدحال معیشت میں کس نے کتنا حصہ ڈالا اور کون کتنا قصوروار ہے!میرا سوال یہ ہے کہ اتنے سا لو ں میں گذشتہ حکومتو ں نے عوام پر قر ضوں کا جتنا بو جھ ڈالا ہے کیا موجودہ حکومت اپنے اس مختصر دور حکومت میں اس کو کس طر ح کم کر سکتی ہے اور اس مہنگا ئی اور معاشی بحران کی کتنی ذمہ دار ہے ؟
مہنگائی قصوروار کون؟
Apr 30, 2019