نواز رضا
اس ہفتہ کی سب سے بڑی خبر وزیر اعظم عمران خان کا ’’ فرنٹ فٹ‘‘ پر کھیلنے والی کھلاڑی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو اپنی ٹیم سے نکال دیناہے ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی وزیر ، مشیر یا خصوصی معاون کو اس طرح بے توقیری سے نکال دیاجائے ۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان پچھلے ایک سال سے حکومتی ترجمان کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہی تھیں وزیر اعظم کا یہ فیصلہ اس قدر اچانک تھا کہ سیاسی حلقوں میں اس ٖفیصلے پر ’’غیر معمولی ‘‘ حیرت کا اظہار کیا گیا ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ڈاکٹر فردوس عاشق جو پیشہ کے لحاظ سے طبیب ہیں یہی وجہ ہے وہ عمران خان کے سیاسی مخالفین پر روزانہ’’ طنز و تشنیع ‘‘ کے جو تیر چلاتی تھیں اس کی کسک عمران خان کے سیاسی مخالفین بڑی دیر تک محسوس کرتے تھے ان کا ’’جارحانہ ‘‘طرز عمل بھی سیاسی فساد کا باعث بنتا تھا سیاسی مخالفین کوان سے شکایات تو تھیں ہی لیکن ’’اپنوں ‘‘کو بھی ان کی ’’تیز رفتاری‘‘ ایک آنکھ نہ بھاتی تھی جب انہوں نے پاکستان تحریک انصاف جوائن کی تو اس وقت ان کو پارٹی کے اندر سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب فواد حسین چوہدری کی جگہ انہیں وزیر اعظم کا خصوصی معاون برائے اطلاعات و نشریات بنایاگیا تو پارٹی کے اندر باقاعدہ ان کے خلاف گروپ بن گیا جو پچھلے ایک سال سے مسلسل ان کا تعاقب کررہا تھا اور ان کو وزیر اعظم سے دور کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوا تھا بالآخر پارٹی کے اندر ان کے مخالفین ان کو خصوصی معاون کے منصب سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئے ۔ ڈاکٹر فردوس عاشق وزیر اعظم کے سیاسی مخالفین کو اپنا ذاتی مخالف سمجھ کر تنقید کا نشانہ بناتی تھیں پاکستان کی سیاست میں سماجی رابطہ ٹویٹ پر بیان بازی ایک نیا طریقہ آیا ہے پاکستان میں بیشتر سیاست دان اس سماجی رابطہ کا بے پناہ استعمال کر رہے ہیں پچھلے دنوں میرے ایک دوست سیاست دان بھی ٹویٹر پر آنے کے خواہش مند نظر آئے تو میں نے ان کو ٹویٹر پرآنے والے رد عمل بارے میں آگاہ کیاتو انہوں نے ٹویٹر کے استعمال سے توبہ کر لی ۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے جس’’ بے رحمی ‘‘ سے عمران خان کے حق میں استعمال کیا اس کی سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی صبح کا آغاز عمران خان کے حق اور ان کے مخالفین کی کردار کشی میں اپنے ٹویٹ پیغامات سے کرتی تھیں ان کا پورا دن ’’پرنٹ و الیکٹرانک‘‘ میڈیا کے ساتھ گذرتا کسی ٹی وی چینل کو اپنا انٹرویو یا ٹویٹر پر پیغام دے کر ہی رات کو سوتی تھیں جن حالات میں ڈاکٹر فردوس اعوان کو اچانک ان کے منصب سے ہٹایا گیا وہ شاید اس کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ تھیں شنید ہے وہ صوبائی وزرائے اطلاعات کی وڈیو کانفرنس سے خطاب کرنے کی تیاری کر رہی تھیں کہ ان کو ٹیلی فون پر ان کو خصوصی معاون کے منصب سے ہٹائے جانے کے کابینہ ڈویژن کے نوٹیفیکیش سے آگاہ کیا گیا اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم کے ’’ وٹس ایپ گروپ ‘‘ سے ان کو نکال دیا گیا اس طرح ان کا وزیر اعظم سے رابطہ بھی ختم ہو گیا سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز کو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بنا دیا گیا ہے جب کہ فردوس عاشق اعوان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کو معاون خصوصی اطلاعات بنا یا گیا ہے عاصم سلیم باجوہ اس وقت پاکستان چین اقتصادی راہداری اتھارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر بھی کام کررہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجو ہ کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی ساتھ پاکستان چین اقتصادی راہداری اتھارٹی کے چیئرمین رہیں گے لہذا اب ان کا خصوصی معاون کا منصب اعزازی ہو گا ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد فواد چوہدری کو ہی وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان سونپا گیا لیکن چند ماہ بعد ہی ان کی جگہ ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان کو معاون خصوصی اطلاعات بنادیا گیا تھا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو ان کے منصب سے ہٹائے جانے کی سیاسی حلقوں میں مختلف ’’کہانیاں ‘‘ گردش کر رہی ہیں ان کو اس منصب سے ہٹایا گیا تو ان پر سرکاری اشتہارات میں 10فیصد کمشن لینے الزام عائد کیا جارہا ہے یہ بھی کہا جا رہا ہے ان کے پاس اپنے استحقاق سے زائد سرکاری ملازم اور گاڑیوں تھیں اکثر وزراء اور بیوروکریٹ اس نوعیت کا ‘‘جرم ‘‘ استحقا ق سمجھ کر کرتے ہیں ممکن ہے آنے والے دنوں ان پر مزید الزامات عائد کئے جائیں سیاست ایک ’’بے رحمانہ‘‘ کھیل ہوتا ہے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو معاون خصوصی کے منصب سے ہٹانے کی بجائے انہیں از خود مستعفی ہونے کا موقع دینا چاہیے تھا افسوس ناک بات ہے کہ پارٹی میں کسی نے ان کا دفاع کیا اور نہ ان کی اشک شوئی کی بلکہ کچھ تو ان کی برطرفی پر ڈفلیاں بجا رہے ہیں بہر حال ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان نے کرپشن سے متعلق خبروں کی تردید کی ہے اس تردید کے لئے بھی انہوں سماجی رابطہ ٹویٹ کا ہی سہارہ لیا ہے انہوں نے کہا کہ ایک سال کے عرصے میں اپنی بھرپور صلاحیتوں سے فرائض سر انجام دینے کی کوشش کی ہے وزیراعظم عمران خان کا شکریہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا،وزیراعظم کا استحقاق ہے کہ ٹیم کے کس کھلاڑی کو کون سے بیٹنگ آرڈر یا کونسی فیلڈ پوزیشن پر کھلانا ہے۔سیاسی کارکن کی حیثیت سے میرانصب العین ملک کی ترقی اورعوام کی فلاح ہے جو وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں جاری رکھاجائے گا وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کا قلمدان سینیٹر شبلی فراز کو سونپا گیا ہے قبل ازیں شبلی فراز سینیٹ میں قائد ایوان کے فرائض انجام دے رہے تھے ان کا تعلق ایک علمی او رادبی خاندان سے ہے ان کی پہچان احمد فراز ہیں جن کا شمار ملک کے بڑے شعر اء میں ہوتا ہے ۔سینیٹر شبلی فراز ایک دھیمے مزاج کے سیاست دان ہیں لیکن ’’کپتان ‘‘ کا تو ’’جارحانہ‘‘ مزاج ہے اس طرح لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ بھی سیاست دان نہیں رہے بلکہ ان کی تمام ترتربیت عسکری ماحول ہوئی ہے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی حیثیت سے ان کا وسیع تجربہ ہے ان کے دور میں آئی ایس پی آر کا رول بڑی حد نمایاں رہا وہ اپنی تمام صلاحیتیں حکومت اور میڈیا کے درمیان بہتر تعلقات کار قائم کرنے پر مرکوز رکھیں گے لہذا وہ کسی کی سیاسی ضرورت پوری کریں گے اور نہ ان سے حکومت کے مخالفین سے اسی لب و لہجہ میں گفتگو کرنے کی توقع رکھنی چاہیے جس میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بات کیا کرتی تھیں البتہ توقع کی جاسکتی ہے لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ حکومت اور میڈیا میں فاصلے کم کرنے میں اپنا موثر کردار اداکریں گے
کورونا وائرس کے تناظر میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے آئین میں18ویں ترمیم پر اپنے تحفظات کا اظہار کر کے ’’بھڑوں‘‘ کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا انہوں نے ایسے وقت میں آئین میں 18ویں ترمیم ختم کرنے کی بات کی جب پورا ملک کورونا وائرس کے خلاف نبرد آزما ہے آئین میں 18ویں ترمیم کی تنسیخ حکومت کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن اس وقت اس ختم کرنا اس کے ایجنڈے پر شامل نہیں کیونکہ حکومت کے پاس اپنی مرضی کی ترمیم کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں لہذا اپوزیشن کی پارلیمانی جماعتوں کی طرف سے آئین میں 18ویں ترمیم کا بھرپور انداز میں دفاع کرنے کے اعلان نے کمزور وکٹ پر کھیلنے کی وجہ سے حکومت آئین میں 18ویں پر ’’پسپائی ‘‘ اختیار کرنا پڑی حکومت کو آئین میں 18ویں ترمیم کی تنسیخ کی ’’خواہش ‘‘ پوری نظر نہیں آتی اس لئے اس نے پینترا بدل دیا ہے حکومت نے ’’ نیا نیب آرڈننس‘‘ لانے کے لئے اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے دوسری طرف سے اپوزیشن نے بھی نیب قانون میں ترمیم کے لئے مشروط طورپر تعاون پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے لیکن جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن آئین میں 18ویں ترمیم کی تنسیخ کے بارے میں آنے والے حکومتی عہدیداروں کے بیانات پر سب سے زیادہ سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں انہوں نے اپوزیشن رہنمائوں شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری کے بعد حاصل بزنجو، پروفیسر ساجد میر اور اویس نورانی رابطہ قائم کیا ہے اور18 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے’’حکومتی موو‘‘ کا سخت جواب دے کر اسے ’’پسپائی ‘‘ پر مجبور کر دیا۔ اعلامیہ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ 18 ویں ترمیم میں تبدیلی کے بجائے اس پر عملدر آمدکو یقینی بنایاجائے اعلامیہ میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت صوبوں کے حقوق کا ہرحال میں دفاع کیا جائے گا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں سے کسی ایک شق کو ختم کرنے کے لئے از سر نوآئین ساز پارلیمنٹ تشکیل دینا ہوگی انہوں نے سوال کیا کہ کس ایجنڈے کے تحت آئینی ترمیم میں ردوبدل کی باتیں کی جارہی ہیں؟ ایسے فیصلوں سے سیاسی و آئینی بحران پیدا ہوگا، موجودہ حالات کسی بھی آئینی بحران کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔