کرونا لاک ڈائون ، کرفیو جیسا محاصرہ اور 8لاکھ سے زیادہ سفاک فوج کو کشمیر میں تعینات کرکے بھارت سامراج مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے وہاں آبادکاری کے قوانین میں تبدیلی لا کر جو مکروہ کام سرانجام دینا چاہتا تھا، اس کا آغاز ہوگیا ہے۔ آئین میں موجود خصوصی دفعات کو ختم کرنے کا مقصد کشمیر کو بھارتی غلامی میں لینا اور وہاں مسلم آبادی کا تناسب بدلنے کا خواب مودی حکومت نے حقیقت میں بدلنا شروع کر دیا ہے۔گزشتہ روز اس سلسلے میں کشمیریوں اور عالمی اداروں کی طرف سے احتجاج کے باوجود بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 3 لاکھ ہندوئوں کو ڈومیسائل جاری کر دیا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال ہندو شرنارتھیوں اور سابق فوجیوں کیلئے مقبوضہ ریاست جموں کشمیر میں کالونیوں کے قیام کی بھی منظوری دی جاچکی ہے۔ بھارت کے اس مکروہ فعل پر کشمیری مسلمان توسراپا احتجاج تھے ہی کشمیری ہندو بھی اس احتجاج میں شامل ہوگئے ہیں۔ کشمیری مسلمان جانتے ہیں کہ ان غیرقانونی اقدامات کی وجہ مقبوضہ کشمیر میں ان کی اکثریت کو تبدیل کرکے اقلیت میں بدلنا ہے۔ مسلمانوں کا احتجاج تو برحق اور فطری تھا ہی مگر اسکے ساتھ ریاست جموں کشمیر کے ہندو کشمیری خاص طور پر جموں کے مقامی باشندے بھی حکومت کی اس حرکت پر سیخ پا ہیں کیونکہ اس طرح ان کی آبادی کا تناسب بھی کم ہو جائے گا اور ڈومیسائل غیرکشمیری ہندو ریاست میں نوکریوں، تعلیم اور دیگر کاروبار میں چھا جائینگے جس سے ان خاص طور پر ڈوگروں اور دیگر جموں کے باشندوں کا مستقبل اور کاروبار خطرے میں پڑ جائیگی۔ فی الحال تو صرف 3لاکھ غیرکشمیری ہندوئوں کو ڈومیسائل جاری ہوا ہے، ابھی تو 14لاکھ افراد کی فہرست تیار ہے جو ڈومیسائل حاصل کرکے ریاست جموں کشمیر کے شہری بننے کے انتظار میںہیں۔ یوں اگر 17لاکھ غیرکشمیری ریاست کی شہریت حاصل کرلیتے ہیں تو جموں میں آباد کشمیری ہندوئوں کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ اس پر جموں کی ڈوگرا جماعتیں سیاسی اور سماجی سطح پر احتجاج کر رہی ہیں، کشمیری علیحدہ احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ ایک خوش آئندہ پیشرفت ہے کہ جموں کی ہندو برادری کو بھی احساس ہوگیا کہ مودی حکومت کس طرح کشمیر اور کشمیریت کو اپنی ہندوتوا کی پالیسی کی آڑ میں تباہ کر رہی ہے۔ اسکے ساتھ کشمیر میں ایک بار پھر کشمیریوں کو درانداز قرار دے کر ان کے قتل عام کی نئی لہر عروج پر ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے میں 11سے زیادہ جوان شہید اور درجنوں گھر تباہ کئے جاچکے ہیں۔ کنٹرول لائن پربھارتی گولہ باری جاری ہے۔ان حالات میں عالمی برادری کو بھارتی بربریت سے آگاہ کرنے کیلئے پاکستان کی حکومت نے ذرائع ابلاغ کے مؤثر ہتھیار کو استعمال کرنے کیلئے جس شخص کو مشیر اطلاعات و نشریات بنایا ہے، وہ ایک منجھا ہوا فوجی ہی نہیں میڈیا کے میدان کا وہ فاتح ہے جس کی میڈیا پر کامیاب پراپیگنڈا وار، مؤثر پالیسی اور کارکردگی پر جب وہ ڈی جی آئی ایس پی آر تھے، بھارتی میڈیا اور حکومت انگاروں پر لوٹتے رہے ہیں۔ اب ایک بار پھر ان کی راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں کہ عاصم سلیم باجوہ اب ملکی سطح پر ہی نہیں عالمی میڈیا پر جب اپنی روایتی گھن گرج کے ساتھ نمودار ہوں گے تو بھارتی میڈیا کی جو جھوٹ کی ماہر ہے، بولتی خودبخود بند ہو جائے گی۔بحیثیت فوجی ترجمان بھی انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ریاست جموں کشمیر میں بھارتی فوجی کارروائیوں اور بھارتی میڈیا کے جھوٹے پراپیگنڈے کا جس طرح منہ توڑ جواب دیا، اس سے کشمیری مسلمان بہت خوش تھے اور ان کی اب اس نئی تقرری پر بھی مسرت کا اظہار کر رہے ہیں۔اس وقت انہیں عاصم باجوہ سے اچھا ترجمان نہیں مل سکتا جو جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا وار میں بھی مہارت رکھتا ہے۔ انہیں لگ رہا ہے کہ گویا قدرت نے مظلوم کشمیریوں کی ترجمانی کیلئے ایک بار پھر ایک مؤثر شخص کو چنا ہے۔ اللہ کرے مشیر اطلاعات عاصم محمود صاحب اہل پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کے توقعات پر بھی پورا اتریں اور دنیا بھر میں مقدمہ کشمیر پوری طاقت کے ساتھ لڑیں۔