چین کے معاشی حب ووہان سے شروع ہونے والا کرونا وائر س لاکھوں لوگ کو لقمہ اجل بناتے ہوئے نہ صرف عالمی وباء کا روپ دھار چکا ہے بلکہ اس کے خوف سے دنیا بھر کی حکومتوں نے اپنی عوام کو گھروں میں رہنے کے احکامات بھی صادر کررکھے ہیں تاکہ اس کے پھیلائو میں کمی لائی جاسکے ،دنیا بھر میں جہاں کورونا کی وجہ سے اموات کی شرح روز بروز بڑھتی جارہی ہے وہاں چین نے اب اس موذی مرض سے پیچھا چھڑا لیا ہے کیونکہ ٹی وی رپورٹس کے مطابق آج جب یہ میں کالم لکھ رہا ہوں تو گزشتہ دس دنوں میں کوئی بھی کرونا کا کیس رپورٹ نہیں ہوا، اگر ہم اس حوالے سے دنیا کے نقشے پر موجود 22کروڑ آبادی کے حامل اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بات کریں تو یہاں پر بھی نہ صرف کورونا کے متاثرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے بلکہ اموات کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔کورونا کے باعث ملک بھر میں لگنے والے لاک ڈائون کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے مگر اس کی شدت میں کمی کی بجائے مسلسل تیزی دیکھنے میں آرہی ہے اور لگ یہی رہا ہے کہ پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد آنے والے دنوں میں مزید بڑھ جائے گی کیونکہ قوم نے احتیاط اور صبر کا دامن چھوڑ نا شروع کردیا ہے جس کے باعث وہ اب نہ صرف لاک ڈائون کی خلاف ورزیوں پر اتر آئے ہیں بلکہ ملک کا تاجر طبقہ تو حکومت کو موردالزام ٹھہرا رہا ہے کہ وہ ان کے معاشی استحصال کی وجہ بن رہی ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت نے شروع دن سے لے کر آج تک جو کچھ بھی کیا ہے وہ سب عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کیلئے ہے مگر پاکستانی قوم ہے کہ سمجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔اس کی بھی بہت ساری وجوہات ہیںاور سارا الزام عوام پر بھی نہیں ڈالا جاسکتا ،اس پر پھر کبھی بات ہوگی مگر ہمارا آج کا موضوع حکومتی امدادی پیکیجز کے باوجود مہنگائی کے جن کا بدستور بے قابو ہونا ہے۔مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح نے جہاں قوم کا جینا دو بھر کردیا ہے وہاں اس کے بُرے اثرات ملکی معیشت پر بھی پڑ رہے ہیں کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے وہاں کے عوام کا خوشحال ہونا بہت ضروری ہوتا ہے مگر پاکستان کا حکمران طبقہ یہ بات سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کررہا اس کے برعکس اگر وہ کچھ کربھی رہے ہیں تو ا ن کی حیثیت زبانی کلامی باتوں اور اقدامات سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے،وہ اس لئے کیونکہ اگروہ حقیقی معنوں میں کچھ کرتے تو آج رحمتوں اور برکتوں بھر ے مہینے رمضان المبار ک کے آغاز کے ساتھ سے ہی ایک بار پھر پاکستانی عوام کو ہوشربا مہنگائی کا سامنا نہ کرنا پڑ رہا ہوتا۔ ویسے تو حکومت نے عوامی مسائل کے حل اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خاتمے کیلئے جہاں اربوں روپے کے امدادی پیکیجز منظور کئے وہاں اب سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کو ختم کرنے کیلئے نیا قانون بھی بنا لیا ہے ،اللہ کرے اس کے ثمرات سے قوم مستفید ہو کیونکہ ماضی میں ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں کہ حکومت قانون سازی تو کرلیتی ہے مگر جب اس پر عملدرآمد کا وقت آتا ہے تو پھر لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ وسائل کے باوجود قوم مسلسل مسائل کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے اس کی بنیادی وجہ کسی حد تک زمینی حقائق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بند کمروں میں ہونے والے فیصلے بھی ہیں اگر اسی طرح بلا سوچے سمجھے عوام پر یہ فیصلے تھوپے جاتے رہے تو اس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کاخاتمہ ممکن ہوگا اور نہ ہی قوم ترقی کی خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگی ۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اگر حقیقی معنوں میں قوم کو ریلیف فراہم کرتے ہوئے مہنگائی کا سوفیصد خاتمہ ممکن بنانا چاہتی ہے تو اس کیلئے انہیں جہاں ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کے خاتمے کیلئے بنائے جانے والے قانون کی بلا تفریق سو فیصد پاسداری کراتے ہوئے اس کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزاد لوانا ہوگی وہاں ملک بھر کے اضلاع میں موجود پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو بھی مکمل فعال اور مضبوط کرتے ہوئے ان کیلئے سزا و جزا کا نظام بھی لانا ہوگا کیونکہ پرائس کنٹرول مجسٹریٹس بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کم کرنے کا ہنر بہتر طور پر جانتے ہیں مگر وہ اس کو استعمال کرْنے سے کتراتے ہیں کیونکہ کہیں ان کی معاشی مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں تو کہیں سیاست کے سامنے وہ بے بس ہوجاتے ہیں اور یہی دو مجبوریاں ان کے پائوںکی زنجیریں بن جاتی ہیں، اگر حکومت انہیں دور کردے تو نہ صرف ملک سے روز برو ز کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کا خاتمہ ممکن ہوجائے گا بلکہ انہیںامدادی پیکیجز کا بھی اعلان نہیں کرنا پڑے گا ۔مگر اس کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا تب کہیں جاکر یہ سب کچھ ممکن ہوگا وگرنہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے تمام تر حکومتی اقدامات نہ صرف مٹی کا ڈھیر ثابت ہوتے رہیں گے بلکہ مہنگائی کی شرح میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آئے گا ؟
حکومتی ریلیف پیکیجز اور بڑھتی ہوئی مہنگائی !
Apr 30, 2020