اینیمیٹڈ کارٹونز کے بچوں پر تباہ کن اثرات

دور حاضر کے بچے گھر کے بزرگوں سے کوہ قاف کی کہانیاں، علی بابا چالیس چور، ٹوٹ بٹوٹ کے قصے سننے، تتلیوں کا تعاقب کرنے، بارش کے پانیوں میں کاغذی کشتی کے رحجان نیز بچوں کا باغ، بچوں کی دنیا، جگنو، ساتھی جیسے پرکشش اور سبق آموز رسالے پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ کیونکہ 2021 کے بچوں کو انٹرنیٹ کے بے جا استعمال نے سیانا و سنجیدہ کر دیا ہے۔ ماضی میں جائیں تو 80 کی دہائی میں بچے سکول، مدرسہ ٹیوشن سے فراغت کے بعد خوب جم کر کھیل کود اور شوروغوغا میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کے بعد شام کے سرمئی آنچل میں گھر کے بڑوں سے حکایات، انبیاء کے قصے سنتے اور بعض چھوٹی چھوٹی سورتوں کو یاد کرکے سوتے تھے۔ پھر 90 کا دور آیا جس میں قومی چینل بڑی کانٹ چھانٹ سے بچوں کی ذہنی استطاعت کے مطابق 6 بجے والے کارٹون نشر کیا کرتا تھا۔ گویا کہانیوں کی جگہ کارٹونز نے لے لی۔ عینک والا جن سمیت دیگر ایسے پروگرام پیش کیے جاتے تھے جو بچوں کی ذہن سازی میں مثبت اور کلیدی کردار ادا کرتے تھے۔ اس تفریحی مواد میں اخلاقیات کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ جھوٹ، چوری، فریب کی قباحتوں سے بھی بچوں کو روشناس کروایا جاتا تھا۔ 2000 میں گھر گھر کیبل عام ہونے سے کارٹون نیٹ ورک نے بچوں کے وقت کے ضیاع میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بچے 24 گھنٹے ٹی وی کے آگے ٹکٹکی باندھے کھڑے رہتے لیکن اکثر گھرانوں میں ٹی۔وی پر ہر قسم کے کارٹون دیکھنے پر قدغن تھی یعنی بچوں کی مانیٹرنگ گھر کا ہر فرد کر رہا ہوتا تھا۔ ’’یہ کیا دیکھ رہے ہو، یہ کیا ماردھاڑ والے کارٹون لگا رکھے ہیں۔ چینل بدلو‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن 2021 میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آنے والی نسل کی آبیاری ایسے ڈیجیٹل زہر سے ہو رہی ہے کہ شاید جس کا تریاق نہ مل سکے۔ اس چھوٹی سی ڈیوائس کو لیکر بچہ کسی بھی کونے میں کچھ بھی دیکھ سکتا ہے ایسی نشریات جو کہ اس کی عمر میں دیکھنے سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ کارٹون اینیمیٹڈ سیریز کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مشہور کارٹونز کی کچھ غیر مستند یو ٹیوبرز اپنے طور سے تجدید کررہے ہیں ان اقساط میں بالغان اور بچوں کیلئے کوئی تخصیص نہیں۔ ان مفاد پرست یو ٹیوبرز کا کارٹون انڈسٹری سے کوئی تعلق نہیں، جب  والدین سرسری جائزہ لیتے ہیں کہ ’’یہ توکارٹونز کے معروف کردار ہیں… چلو دیکھ لو!‘‘ جبکہ والدین بے خبر ہوتے ہیں۔ مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے سبب گھروں میں محصور رہنے کی مجبوری میں مائیں بچوں کے ہاتھوں میں موبائل تھما کر خود کاموں میں مشغول ہو جاتی ہیں۔ بقول ان کے کہ ’’اس طرح بچے کا دھیان اینیمیٹڈ کارٹونز کی طرف رہنے سے دل اسکا بہلا رہتا ہے اور وہ شور نہیں کرتا۔ گھر کی چیزیں نہیں توڑتا۔‘‘ تف ہے ایسی ماؤں پر جو اپنے بچوں کو ایسی سرگرمی میں مبتلا کر رہی ہیں۔ جس سے حقیقت سے فرار اور فینٹسی ورلڈ میں کھوئے رہنے کے رحجان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے فینٹسیز میں مبتلا بچے تعلیم اور کھیلوں کی سرگرمیوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اعصابی تناؤ کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ کمزور دل ہو جاتے ہیں۔ قارئین کیا آپ نے کبھی وہ کارٹونز خود بھی ملاحظہ کیے ہیں جنہیں آپ بچوں کو دیکھنے کی کھلی چھوٹ فراہم کرتے ہیں؟؟؟۔ بلاشبہ ان کے خطرات ہمہ جہتی ہیں جو کہ ثقافتی، اخلاقی، تربیتی پہلوؤں کو متاثر کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو الیکڑانک گیجٹ مسلم گھرانوں کے لیے بہت بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔ والدین اس اضطراب میں مبتلا ہیں کہ بچوں کی تربیت پھر کس طرح سے کی جائے۔ اگر الیکٹرانک ڈیوائسز چھین لی جائیں تو بچے ان بچوں کے ساتھ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے جو ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔ مزید برآں کئی والدین یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’یو ٹیوب اینیمیٹڈ سیریز دیکھنے کے بعد بچے وہ بات کہہ جاتے ہیں جو بالغ لوگوں سے متعلق ہوتی ہے۔‘‘ قارئین اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ انہی سیریز  میں جنسی بے راہ روی کی بہتات ہے۔ ہر دوسری اینیمیٹڈ سیریز میں کوئی نہ کوئی ’’لو اسٹوری‘‘ موجود ہوتی ہے۔ خطرناک ترین بات تو یہ ہے کہ مزید ویڈیوز اور کارٹونز کے آپشن نیچے یا موبائل اسکرین کے اطراف پر آ رہے ہوتے ہیں جن میں اخلاقی گرواٹ سے لبریز مواد موجود ہوتا ہے۔ حتی کہ باربی کارٹون کی یو ٹیوب ویڈیو میں قابل اعتراض مواد دکھانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ اخلاقیات سے گری ہوئی یہ قسط ’’ٹوائے فیسٹیول‘‘ نے شائع کی ہے۔ سخت عوامی ردعمل پر اس کے کومنٹس سیکشن کو ہی ٹرنڈآف کردیا گیا مگر وہ قسط ڈیلیٹ نہیں کی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بچے قبل از وقت ہی سن بلوغت کو پہنچ رہے ہیں۔ کئی کارٹونز تو ایسے ہیں جن میں چوری، دھوکہ دہی، بچوں سے بدتمیزی اور منفی عادات میں مبتلا نظر آتے ہیں جن کا اثر بچے جلد قبول کرتے ہیں مثال کے طور پر ’’ٹین ٹائٹنز‘‘ میں کالے جادو کی ترویج کی گئی ہے۔ ’’ڈورے مون‘‘ دیکھنے کے بعد بچے شدید خواہش کرتے ہیں کہ کاش ہمارا ہوم ورک کوئی گیجٹ ہی کر دے۔ دوسری جانب ہندی اینیمیٹڈ کارٹونز ’’بھیم‘‘ میں ہندو اپنے مذہب و زبان کا پرچار کر رہے ہیں۔ جس سے اردواور ہندی زبان خلط ملط ہو رہی ہے۔ بچے دیوالی، ہولی کے تہواروں کو کھیل کھیل میں منا رہے ہوتے ہیں۔الغرض یہ کہ والدین اپنے بچوں کی تفریحی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھیں۔ ڈیجیٹل آلات کے پاسورڈ معلوم ہونے چاہیں۔ بچوں کا اسکرین ٹائم والدین کی موجودگی میں مختصر ہو۔مستقبل میں الارمنگ صورتحال سے بچنے کے لیے پہلے سے مناسب منصوبہ بندی کر لی جائے کہ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں کہیں ایسا نہ ہو آپ ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ کی عملی مثال بن جائیں۔

ای پیپر دی نیشن