حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)

Apr 30, 2021

علامہ منیر احمد یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 اُم المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہؓ  آپ کا نام عائشہ ‘ لقب صدیقہ اور حُمیَرا ہے، حضور نبی کریم ؐنے  بنتِ صدیقؓ سے خطاب فرمایا۔ آپ کی والدہ محترمہ حضرت اُم رومان بنتِ عامر بن عویر کنانہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ہے۔ 
حضرت عبداللہ بن عُروہ سے روایت ہے ،اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓنے فرمایا: ’’ میرے ساتھ رسول اللہؐ کا نکاحِ مبارک شوال المکرم میں ہوا اور  اسی مہینے  ہی رخصتی ہوئی۔ پھر آپ  ؐ کے نزدیک مجھ سے زیادہ نصیب والی آپ  ؐکی کوئی بیوی نہ تھی۔  حضرت ابو عاصمؓ سے روایت ہے ،اہل عرب شوال المکرم میں رخصتی پسند نہیں کرتے تھے ۔ اس کی وجہ  یہ تھی کہ کسی زمانے میں  اس مہینے میں طاعون کی بیماری پُھوٹ پڑی تھی۔ (طبقات ابن سعد جز نمبر 8 تذکرہ صالحات و صحابیات)
حضرت انس بن مالکؓ  سے روایت ہے ،میں نے رسول اللہ ؐکو فرماتے ہوئے سُنا کہ: ’’اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کودوسری عورتوں پر اَیسے فضیلت حاصل ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پر‘‘۔ (بخاری جلد 1 ص 522‘ ترمذی حدیث نمبر 3887)
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓنبی کریمؐکے حبالۂ عقد میں آنے کے بعد جب حرم پاک میں رَونق اَفروز ہوئیں تو رہائش کیلئے جو حجرۂ مبارک ملاوہ مسجد نبوی شریف سے متصل تھا۔ اُس کا دروازہ مسجدِ نبوی شریف کی طرف کھلتا تھا۔ جس میں ایک پٹ کا کواڑ لگاہواتھا اورپردہ کے طورپر ایک کمبل پڑارہتاتھا۔ اِس حجرۂ مبارک کی لمبائی چوڑائی چھ سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی۔دیواریں مٹی کی اورچھت کھجور کے پتوں اورٹہنیوں کی بنی ہوئی تھی۔ بارش سے بچاؤ کیلئے اُس پر ایک کمبل نما کپڑا ڈال دیا گیا تھا۔ اُ س حجرۂ مبارک کی بلندی اِتنی تھی کہ آدمی کھڑاہوتا تو چھت کو چھو سکتاتھا۔حجرہ مبارک سے متصل ایک بالا خانہ تھا جس کو مشربہ کہتے تھے۔ اَ یّام ایلاء میں نبی کریمؐ نے ایک ماہ بستر فرمایا تھا۔ (ابوداؤد)
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓکے پاک گھر کی خود اِختیاری کائنات ایک چارپائی‘ ایک چٹائی‘ ایک بستر‘ ایک چھال بھراتکیہ‘ دوتین مٹکے اورپانی پینے کیلئے ایک پیالہ سے زیادہ نہ تھی۔کئی کئی راتیں اَیسی گزرتیں کہ گھر میں چراغ تک نہ جلتاتھا۔ گھر میں کھانا پکنے کی نوبت بہت کم آتی تھی۔ خود اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ تین تین دن مسلسل اَیسے گزرتے کہ خاندانِ نبوی ؐ نے پیٹ بھر کر کھانا نہ کھایا۔(صحیح بخاری معیشت النبی ؐ۔)اِسی طرح حضرت موسیٰ بن طلحہؓ  روایت ہے: ’’میں نے حضرت سیّدہ عائشہ ؓ سے کسی کو فصیح و بلیغ نہیں دیکھا‘‘۔ (مشکوٰۃ حدیث نمبر 6195‘ مرقاۃ جلد 11 ص 338)
 اُم المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ کی علمی زندگی نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ خلیفۃ الرسول حضرت ابو بکر صدیق اور امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر بن خطابؓ اور امیر المؤمنین حضرت عثمانؓ کے اَدوارِ خلافت میں فتویٰ اِرشاد فرماتی تھیں۔ اِن سے 2210 اَحادیثِ مبارکہ مروی ہیں جن میں ۱۷۴ اَحادیث مقدسہ حضرت اِمام بخاری اور حضرت اِمام مسلم ؓ نے بیان کی ہیں۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ اَحکام شرعیہ میں سے ایک چوتھائی اِن سے منقول ہیں 7؎(طبقات ابن سعد جز 8 ‘ سیرت النبی جلد 2 ص 376)
حضرت اَحنف بن قیسؓ اور حضرت موسیٰ بن طلحہؓ کا قول ہے کہ اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے بڑھ کر کسی کو فصیح نہیں دیکھا۔بعض اَیسے فقہی اَحکام جن میں صحابہ کرامؓ  مختلف الرائے تھے۔ اُنہوں نے ہمیشہ وہ پہلو اِختیار کیاجس میں عورتوں کیلئے سہولت اورآسانی ہوتی تھی کہ اُن کی جنسی ضرورتوں کو وہی بہتر جانتی تھیں۔ رسولِ کریمؐ کے ظاہری زمانۂ حیات میں بھی خواتین اکثر اَیسے مسائل نبی کریم ؐسے پوچھتیں جن کے جوابات کھلے عام نہیں دیئے جاسکتے تھے۔ لہٰذا نبی کریمؓ اَیسی خواتین کو اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓکے پاس بھیجتے تھے اوراُن خواتین کے مسائل سُن کر ‘قرآنِ مجید و حدیثِ پاک کی روشنی میں جواب دیتی تھیں۔ حضرت عطا بن ابی رباح ؓنے فرمایا: اُمّ المؤمنین سب لوگوں سے زیادہ فقیہہ ، سب سے بڑی عالمہ اور سب سے زیادہ عقلمند تھیں۔  آپ کامل طبیبہ اور شاعرہ تھیں۔ (تفہیم البخاری جلد 5 ص744)حضرت ابو بردہ بن ابو موسیٰ اشعری نے فرمایا جب کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہوتا تو ہم اُمّ المؤمنین کی طرف رجوع کرتے تھے۔ (تفہیم البخاری جلد 5 ص 744)حضرت زہری ؓنے فرمایا ہے:  اگر تمام اُمہات المؤمنین کاعلم اور دنیا کی تمام عورتوں کا علم جمع کیا جائے تو اُم المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے کم ہوگا۔ (تفہیم البخاری جلد 5 ص 744)حضرت عمرو بن العاص سے روایت ہے ِمجھے رسولِ کریم ؐنے ایک لشکر کا سپہ سالار بنایا‘(فرماتے ہیں)جب میں آیا‘تو میں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہؐ! لوگوں میں کون آپ  ؐ کو سب سے زیادہ عزیز اور پیارا ہے؟ تو نبی کریم ؐنے فرمایا: ’حضرت عائشہؓ‘‘۔ (میں نے عرض کیا‘ مردوں میں؟تو نبی کریم ؐنے فرمایا: اُن کا باپ‘حضرت ابو بکر صدیق ص)۔ (بخاری حدیث نمبر 4359‘ مشکوٰۃ حدیث نمبر 6023‘ مسلم حدیث نمبر (2384-8)اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہؓ  فرماتی ہیں:مجھے ازواجِ پر دس وجہ سے فضیلت حاصل ہے۔ (1):میرے سوانبی کریمؐ نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔(2):نبی کریمؐ کے پاس جبرائیلؐ آسمان سے ریشمی کپڑے میں میری تصویر لائے۔ (3):میرے سوا کسی اَیسی خاتون سے نکاح نہیں کیاجس کے ماں باپ دونوں مہاجر ہوں۔(4): اللہ تبارک وتعالیٰ نے آسمان سے میری برأت اُتاری۔(5):میں نبی کریمؐکے سامنے ہوتی تھی اورآپ  ؐ نماز میں مصروف ہوتے تھے۔ (6): نبی کریمؐجس برتن میں غسل فرمالیتے تھے بعد ازیں میں بھی اُسی برتن کے پانی سے غسل کرتی تھی۔ (7):نزول وحی میں صرف میں ہی آپ   کے پاس ہوتی تھی۔ (8):جب سرورِ کائنات  ؐکی روح مبارک نے عالم قدس کی طرف پرواز کی تو حضور  ؐکا سرمبارک میری گود میں تھا۔ (9): جس شب میرے ہاں قیام تھا‘ اُسی رات کو حضور  ؐکا وصال ہواتھا اور (10): میرے ہی حجرہ مبارک کو رحمۃ اللعالمین ؐکا مدفن بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ (طبقات ابن سعد‘ تفہیم البخاری جلد 5 ص 744)
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ ؓہر سال حج پر تشریف لے جایا کرتی تھیں۔ حج پر باقاعدگی سے جانے کا مقصدیہ تھا کہ وہاں آ نے والے مسلمانانِ عالم اپنے نبی کریمؐکی تعلیمات سے بہرہ ور ہوسکیں۔ مسلمانوں کو یہ علم تھاکہ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ ؓ  علم و معرفت کا اَیساسمندر ہیں جس میں تعلیماتِ نبویؐ  کے موتی بھرے پڑے ہیں۔لہٰذا حج کے موقع پر اُن کی رہائش گاہ طالبانِ علم و معرفت کا مرکز بن جاتی تھی۔ یہ سلسلہ آخری سانسوں تک جاری رہا۔
(1)حضرت ابو سعید ؓ فرماتے ہیں ‘ ایک آنے والا اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓکے پاس حاضر ہوا۔ آپ اَپنا نقاب سی رہی تھیں۔ اُس نے عرض کیا  اے امّ المؤمنین ؓکیا اللہ نے مال کی فراوانی نہیں فرما دی۔ آپ نے فرمایا: اِن باتوں کو چھوڑو۔ سنو! جو پرانے کپڑے اِستعمال نہ کرے وہ نئے کپڑوں کا حق دار نہیں۔
(2)حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباسؓ اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓکے پاس اُن کی وفات سے قبل تشریف لائے اور اُن کی اِس طرح تعریف کی۔ خوش خبری ہو کہ آپ رسول اللہ  ؐکی زوجہ مطہرہؓ ہیں۔ آپ  ؐ نے بغیر آپ کے کسی کنواری عورت سے شادی نہیں کی اور آپ کی برأت کے بارے میں آسمان سے وحی نازل ہوئی۔ پھر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر ؓتشریف لائے تو آپ نے اُنہیں فرمایا حضرت عبداللہ بن عباسؓ ؓنے میری تعریف کی ہے آج میں کسی سے اپنی تعریف پسند نہیں فرماتی میری تو تمنا ہے کہ میں بھولی بسری ہوتی۔
حضرت عروہ  سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ میں اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہؓ نے ایک دن میں ستر ہزار (70000) درہم خیرات کئے اور ایک درہم بھی اپنے پاس نہ رکھا۔حضرت عبداللہ بن زبیرؓ  سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ ایک مرتبہ میں نے ایک لاکھ (100000) درہم سے دو تھیلے بھر کر بھیجے۔ آپ نے ایک طباق منگوایا اُس میں رقم رکھی اور لوگوں کو بانٹنے لگیں۔ اُس دن آپ روزے سے تھیں شام تک ایک لاکھ (100000) درہم تقسیم فرما دئیے۔ اِفطاری کے وقت خادمہ اُم ذرہ بولیں: اے اُم المؤمنین ؓآپ اِس میں سے ایک درہم کا گوشت منگوا سکتیں تھیں جس سے آپ روزہ اِفطار فرما لیتیں۔ فرمایا: اگر تم مجھے یاد دلا دیتی تو میں گوشت منگوا لیتی۔
اُمّ المؤمنین حضرت سیّدہ عائشہ ؓ رمضان المبارک ۵۸ ہجری میں بیمار ہوگئیں۔ چند روز علیل رہیں۔ مرض الموت میں وصیّت فرمائی کہ مجھے دیگر ازواجِ مطہرات کے ساتھ جنت البقیع میں رات کے وقت دفن کیا جائے‘ صبح کا اِنتظار نہ کیاجائے۔ 17رمضان المبارک کو منگل کی رات 63 سال کی عمر میں رات کو نماز وتر کے بعد اِس دارِ فانی سے پردہ فرمایا۔اِن کے اِنتقال سے تمام عالم اسلام صدمے میں مبتلا ہوگیا۔  نمازِ جنازہ حضرت ابوہریرہؓ نے پڑھائی جو اُس وقت مروان بن حکم کی طرف سے مدینہ منورہ کے حاکم تھے۔ اور حسب ِ وصیت رات کے وقت جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔  محمد ابی بکت کے بیٹے حضرت قاسمؓ  ، حضرت عبداللہ بن عبدالرحمنؓ‘ حضرت عروہ بن زبیرؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓنے قبر میں اُتارا۔  (تفہیم البخاری جلد 5 ص 744)

مزیدخبریں