مکتوب بیلجیم
وقار ملک
بشارت راجہ نے انسانیت سے خدمت کا سلسلہ نوجوانی سے ہی شروع کیا آپ کے والد محترم راولپنڈی کی ایک بااثر شخصیت تھیں جنھوں نے ہمیشہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا آپ کے والد محترم راجہ لال خان مرحوم ایک منفرد شخصیت تھے نوجوانوں اور طلباءسے دلی محبت اور ان کی تعلیم پر ترجیع ہوتی راقم طالب علمی کے زمانے میں دھمال میں واقع ان کے گھر میں راجہ لال خان کے ساتھ بیٹھتا اور راجہ لال خان سے سیکھنے کا موقع ملتا آپ صبح سویرے ا±ٹھتے اور عوام کے مسائل سنتے جب بڑھاپے میں زیادہ چل نہیں سکتے تھے تب بھی عوامی ڈیرے کا چکر لگاتے اور اپنی سوٹی سے راجہ بشارت کو ہدایات جاری کر کے جاتے راجہ بشارت والد محترم کے احترام سے عوامی جھرمٹ سے احترام آ کھڑے ہو جاتے اور ہدایات پر عمل کرنے کا یقین دلاتے یہی وجہ ہے کہ راجہ بشارت نے اپنے گھر سے عوامی خدمت کا سلسلہ دیکھا جو آج تک جاری و ساری ہے اب یہ سلسلہ راجہ ناصر اور راجہ بشارت کے حاحبزادے کو بھی منتقل ہو رہا ہے جو دن اور رات راجہ بشارت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر تجربات سے مستفید ہو رہے ہیں اور عوامی خدمت میں پیش پیش ہیں دھمیال کے ان را جگان کو عوام کی دعاو¿ں کا ایک نہ رکنے والا سلسہ بھی جاری ہے یہی وجہ ہے کہ راجہ ناصر اور راجہ بشارت و خاندان کے دیگر افراد کے درمیان پیار و محبت کو ایک بے پناہ مضبوط رشتہ موجود ہے راجہ بشارت اپنے چھوٹے بھائی راجہ ناصر کو بچوں کی طرح پیار کرتے ہیں ،اور ہمیشہ راجہ ناصر کا ذکر بڑے احترام اور محبت سے کرتے ہیں جس سے دونوں بھائیوں کی ایک دوسرے سے محبت جھلکتی نظر آتی ہے صدقہ، خیرات، زکوٰ?، فطرانہ اور وقف یہ تمام عمل مال اور وسائل کو معاشرے کے محروم طبقات تک پہنچانے کا عمل بھی آپ کے ہاتھ سے پہنچایا جاتا ہے مذہب سے لگاو¿ اور پیار بھی دیدنی ہے اور دین اسلام کو انسانیت کی فلاح کا مذہب سمجھتے راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اخوت، ہمدردی، ایثار، قربانی اور محبت کا حکم دیتا ہے۔ دین اسلام میں محتاجوں، غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے واضح احکامات دیے گئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اسلام نے انسانیت کی مدد کرنے کا درس دیا ہے۔ دکھی انسانیت کی مدد کرنا بہت عظیم کام ہے۔ تمام معاشروں میں خدمت خلق انسانی اقدارکی بلند تر صفات کا حصہ ہے بشارت راجہ نے ہمیشہ اورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کی بات کی انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی بات کی مسل? کشمیر کے حل میں گہری دلچسپی لی ان کا کہنا ہے کہ دنیا نے اسلام کے بہت سے احکام پر عمل کر کے خود کو ایک مضبوط اور خوشحال معاشرہ بنا لیا ہے۔ انھوں نے ایک سال میں اتنی بڑی دولت صرف معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کی ہے۔ہم مسلمان جنھیں ہمارا مذہب دکھی انسانیت کی خدمت کا باقاعدہ حکم دیتا ہے، ہم پر تو دکھی انسانیت کی خدمت کرنا اور بھی زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے بہت بڑی رقم خرچ کرنا ضروری نہیں، بلکہ جس کے پاس جتنی استطاعت ہو، وہ اتنی رقم خرچ کرکے خدمت خلق کرسکتا ہے۔ ہم لوگ اپنی زندگی کی سہولیات کو بڑھانے کے لیے اتنے زیادہ پیسے خرچ کردیتے ہیں، جس میں سے اگر تھوڑا سا بچایا جائے تو بہت سے گھرانوں کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ اپنے گلی محلے میں ضرورت مندوں کو تلاش کریں۔راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں بھوکے کو کھانا کھلانے کا ایک ٹھوس بنیادوں پر کام شروع کیا ہے تاکہ کوئی بھی شخص بھوکا نہ سوئے حکومت دن رات اس کاوش میں ہے کہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا ئےاس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب متحد ہو کر اہنے قائد عمران خان کا ساتھ دیں پنجاب کو مضبوط بنانے کے لیے وزیراعلی عثمان بزدار کے قدم مضبوط کریں آج پنجاب ایک نیا رنگ پیش کر رہا ہے پاکستان بین الاقومی سطح پر اجاگر ہوا اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے اللہ کا شکر ہے پاکستان رفتہ رفتہ مسائل کی دلدل سے باہر نکل آیا ہے اب وہ وقت دور نہیں جب پاکستان دنیا کے نقشے میں گھوم رہا ہوگا دنیا پاکستان کا رخ کرے گی اور پاکستان میں کاروبار کرنے کو ترجیع دیں گے بشارت راجہ نے راولپنڈی کو بنانے اور سنوارنے میں بڑا کردار ادا کیا صحت اسکول اور بچوں کے کھیلنے کے لیے گراو نڈ ان کی ہمیشہ ترجیع رہی اور ہمیشہ فکرمند رہے ملک اور قوم کی ترقی کے لیے ہمیشہ پشیمان رہے بشارت راجہ جس کے دوست بنے پھر اسی کا ساتھ نبھایا چوہدری برادران کے ساتھ آپ کا لگاو اور محبت دیدنی ہے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا تو ڈنکے کی چوٹ پر دیا ان کا ہمیشہ کہنا تھا کہ رمضان کا بابرکت مہینہے کی آمد میں نیکی کمانے اور انسانیت کی خدمت کا بھرپور موقع ملتا ہے اپنے گلی محلے میں ایسے افراد کو تلاش کیجیے جو رمضان میں بھی خشک روٹی اور سادہ پانی کے ساتھ روزہ افطار کرتے ہیں۔ کتنے ہی ایسے ہوتے ہیں، جو عید پر بھی اپنے اور اپنے بچوں کے لیے نئے سوٹ سلوانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اپنے بچوں کے لیے نئے جوتے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یہ اپنے بچوں کی ضروریات پوری نہیں کرسکتے۔ خاموشی کے ساتھ ایسے افراد کے ساتھ تعاون کیجیے۔ یہ لوگ حقیقت میں تعاون کے حقدار ہیں۔