عبدالباسط خاں
حافظ محمد اسلم حق اپنے مشن میں پرعزم، ثابت قدم اور پرامید ہیں
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو پیدائشی اور خاندانی طور پر بہت آسودہ حال اور امیر ہوتے ہیں ، اُن کے پاس اپنے والدین کی چھوڑی ہوئی دولت ان کی آئندہ نسلوں کیلئے کافی ہوتی ہے۔ یہ لوگ صرف روبوٹ ہوتے ہیں۔ انسانی جذبات ہمدردی ، رحم اور فطری پیار اور محبت سے عاری ہوتے ہیں دوسری کلاس ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو اوسط درجے یا مڈل کلاس سے محنت کرتے کرتے بامِ عروج اور ترقی کی منزلیں جھٹ پٹ میں حاصل کر لیتے ہیں یہ لوگ اللہ کی مدد اور خوشنودی سے سرشار ہو کر زندگی میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ انسانیت کے ترجمان محبت ان کا ایمان اور بھائی چارہ ان کی شان یہ گرے ہوئے انتہائی غربت زدہ مفلوک الحال لوگوں کے دست و بازو بن جاتے ہیں۔ آپ سوچتے ہونگے آخر اتنی تمہید کیوں باندھی جا رہی ہے جناب ہر شخصیت جس کا تعلق پاکستان سے ہے اور ابتداءمیں اپنے کاروبار کا آغاز لاہور سے کیا مگر بعدازاں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر ناروے کو اپنا مسکن بنا لیا۔ ان کی زندگی میں ایک انقلابی تبدیلی ناروے میں رونما ہوتی ہے ان کی زندگی کا یہ خوبصورت موڑ مجھے یہ سوچنے میں مجبور کرتا ہے کہ ہم لوگ شاید جو عملی زندگی میں اپنے آپ کو بہت کامیاب اور خوش قسمت سمجھتے ہیں ان کی زندگی کی عملی جدوجہد جو انسان دوستی محبت اور قربانی اور ایثار سے مزین ہوتی ہے کے سامنے پست قد نظر آتے ہیں۔ حافظ محمد اسلم حق جب مجھے لاہور میں ملے تو میں ناقابلِ یقین حد تک ان کی آنکھوں میں انسانیت سے پیار اور مدد کا جذبہ دیکھ سکتا تھا۔ ٹیلی فون پر میرے دوست نے جب مجھے بتایا کہ آپ سے ایک پرانے اور دیرینہ دوست سے ملاقات کراﺅنگا تو میں نے یادداشت پر زور دینا شروع کیا کہ آخر یہ شخصیت کون ہے لیکن جب حافظ محمد اسلم حق بہ نفسِ نفیس میرے سامنے آئے تو چار بھائیوں کا طویل سفر لمحہ بھر میں طے ہو گیا وہ اپنی زندگی کی جدوجہد اور پاکستانیوں کیلئے اپنی خدمات کا ذکر کرنے لگے تو میں سوچنے لگا کہ ہمارے ہاں قوم جن لوگوں کو الیکشن میں چُنتی ہے اور جن کا مقصد غریب لوگوں کی خدمت کرنا ہوتا ہے ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ وہ لوگ ایسے لوگوں کے سامنے ہیچ اور پست قد نظر آتے ہیں وہ ہمدرد ، غریب پرور غمگسار اور انسان دوستی کا اعلیٰ نمونہ نظر آئے ۔ دوسرے دن میرے اصرار پر وہ میرے دفتر تشریف لائے لیکن دفتر آنے سے پہلے انہوں نے ٹیلی فون پر بتایا کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے تاہم وہ بہتر محسوس کر رہے ہیں مجھے حد سے زیادہ تشویش لاحق ہوئی کہ بھلا آپ اپنی سرگرمیاں کیسے جاری رکھ سکتے ہیں آپ آرام کیجئے مگر وہ اپنی کمٹمنٹ یعنی میرے دفتر میں آنے اور اس سے پہلے ایک تقریب میں مدعو تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ضرور تشریف لائیں گے۔ میں نے اپنی زندگی میں شاید ہی ایسا شخص دیکھا ہو جو اس حالت میں انسانی محبت کے جذبے سے سرشار لوگوں کی مدد کے لیے بیتاب نظر آیا ہو وہ غریبوں یتیموں ، بیواﺅں کی مدد کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ناروے میں سہارا ویلفیئر فاﺅنڈیشن کے نام سے ایک رفاعی تنظیم قائم کی ہوئی ہے ان کی اس تنظیم نے لوگوں کی فلاح اور بہتری کیلئے بیش بہا اقدامات کئے جن میں سندھ میں فلٹریشن پلانٹ قصور جیل میں قیدیوں کیلئے ان گنت سہولتیں جس میں علاج معالجہ کے علاوہ ایسے قیدیوں کی رہائی کے لیے رقم دینا بھی شامل ہے۔ وہ لاہور میں اکثر مقامات پر لوگوں کو دو وقت کا کھانا بھی مفت تقسیم کرتے نظر آتے ہیں یہ سب کام وہ انفرادی طور پر بغیر کسی کی مدد کے سرانجام دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ناروے کی حکومت سے کبھی مدد طلب نہیں کی۔ ان کا یہ کہنا بھی تھا کہ وہ غریب اور نادار لوگوں کی مدد کیلئے سارا سال مفت راشن تقسیم کرتے ہیں بلکہ رمضان مبارک میں وہ خصوصی طورپر روزہ کشائی اور مفت راشن تقسیم کرتے ہیں جو یہ کافی سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ حافظ قرآن اور لاتعداد مرتبہ عمرے اور حج کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ وہ ناروے اور یورپ کے بیشتر ممالک سے پاکستانی مسلمانوں کیلئے حج عمرے کا انتظام بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ حافظ محمد اسلم حق صاحب اپنے مشن میں پرعزم، ثابت قدم اور پرامید ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اہل خانہ کو عمر طویل بمعہ صحت و سلامتی عطا فرمائے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی اولاد کو تعلیم کا بہترین عطیہ اور تمغہ عطا کیا اور بقول ان کے اس مشن کی کامیابی میں ان کی بیگم اور بچوں کا ناقابل شکست جذبہ اور عزم شامل ہے۔
اس میں کوئی شک اور دورائے نہیں کہ صدقہ خیرات اسلام کی عین روح کے مطابق ہے بلکہ اس سے ان کی اور اہل خانہ کی روح کو بہت تسکین اور سکون ملتا ہے اور یہی ان کی زندگی کا محور و مقصد ہے جس کیلئے وہ تاحیات کوشاں رہے۔ ناروے جا کر انہوں نے اپنا چیک اپ کرایا اور وہاں ڈاکٹروں نے ان کی انجیوپلاسٹی کر دی اور ماشاءاللہ صحت مند ہیں۔ ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں بہت کم اور ناپید ہیں جو دوسروں کیلئے جیتے ہیں۔
یقینا ہمارے اعمال کا دارومدار ہماری نیتوں پر ہے۔ اگر ہماری نیتوں اور اعمالوں میں اللہ کی مدد شامل حال ہو تو بڑے بڑے معجزے رونما ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے اردگرد نظر رکھنی چاہئے اور جو کوئی مجبور غریب ضرورت مند ہاتھ پھیلا دے، ہمیں اس کی بلا چوں و چرا مدد کرنی چاہئے۔ اگر حافظ محمد اسلم حق جیسے سوچ رکھنے والے پاکستانی ان کو مشعل راہ بنائیں تو ہمارے پسماندہ دور افتادہ علاقوں میں ننگے بدن، ننگے پاﺅں مفلوک الحال غربت زدہ بچوں کے حالات سنور جائیں۔ہماری کچھ امداد سے ہمارا تو نقصان نہیں ہوگا مگر ان لوگوں کا ضرور بھلا ہوگا جو دو وقت کی روٹی کیلئے ترستے رہتے ہیں۔ حافظ محمد اسلم بہت خوبصورت قرات فرماتے ہیں۔اللہ کے کلام سے بے شمار لوگوں کو صحت یاب فرماتے ہیں۔