"World Earth Day" 

22 اپریل بے حد اہم دن۔ سینکڑوں دن منانے والی سر سری رسم ۔ چند کلمات کے ساتھ گزر گیا ۔ کرونا وائرس کے تناظر میں اِس کی اہمیت مزید دو چند ہوگئی کہ اب" منانے "سے آگے کی طرف سفر شروع کر یں۔ ہر چیز مادی ہے یا غیر مادی ۔ انسانی ساختہ گھر یا گاڑی ۔ کچھ مدت گزرنے کے بعد مرمت طلب ہوتے ہیں ۔ حالت زیادہ خراب ہو جائے تو تبدیلی لازم ہو جاتی ہے۔ بلاشبہ "ارضی تصویر" کے نقوش بدل رہے تھے ۔ رنگ طے شدہ فریم سے باہر پھیل رہے تھے۔ دنیا ذہانت کے انسانی مجسموں سے بھری پڑی ہے وہاں فطرت اور اُسکے حسن سے محبت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ۔ بڑھتا ہوا ماحولیاتی تعفن ۔ اِس کا نقطہ آغاز ٹھہرا ۔50"سال" پہلے" ارتھ ڈے" منانے کا فیصلہ ہوا ۔ فطرت پرست ایجاد کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے تھے ۔ جو اختیار اُن کے پاس تھا وہ انھوں نے استعمال کر ڈالا ۔ آگے کا کلیدی کردار" ریاستی طاقتوں" کا تھا ۔ بوجوہ وہ ادا نہ کر پائیں ۔ دانستہ غفلت ۔ انسانی ہوس سبھی کے ہاتھوں زمین مزید گدلی ہوتی گئی ۔ فضا زہریلی گیسز باعث اتنی دھندلی ہوگئی کہ آسمان کا اصل رنگ ہی اکثریتی حصہ سے غائب ہو گیا ۔ قدرت کی دریا دلی ملا خطہ فرمائیں ۔ زمین ۔ آسمان اور اِسکے اندر دستیاب تمام نعمتیں " انسان "کے لیے بنائے گئے ۔ 
ترجمہ :۔ وہی تو ہے جس نے کردیا ہے تمہاری خاطر زمین کو (تمہارا ) تابع ۔ سو چلو پھرو اِس کی چھاتی پر اور کھاوْاللہ کا رزق۔ (المُلْک۔15)۔
رب کائنات کی اپنی تخلیق سے محبت ۔ کرم کا بھرپور اظہار ۔ تو وہاں واضح نشانی کہ" مالک حقیقی "نے ہمیں نگران بنایا ہے ۔ ہر انسان چوکیدار ہے۔ اب چوکیدار کا کیا کام ہے َ؟ یہی ناکہ مالک کی عطا کردہ نعمت کا شکر ادا کرے اور جو کام اُسے سونپے گئے ہیں اُس بابت خلوص سے اپنا کردار ادا کرے ۔ صاف ظاہر ہے ہماری حیثیت ایک ملازم سے زیادہ نہیں ۔ تو جب کوئی نوکر اپنا کام صحیح طور پر سر انجام نہیں دے پاتا یا خیانت کرتا ہے تو مالک اُسے وارننگ دیتا ہے نافرمانی پر نوکری سے نکال دیتا ہے۔ "مرمت یا تبدیلی" ۔ دو اصول ۔ گھر ۔ رعیت صاف۔ پر سکون رہنے اگر " زمینی چوکیدار" فطرت کے عطا کردہ وسائل کو استعمال کرنے کے علاوہ زمین ۔ فضا کی صفائی ستھرائی کا بھی خیال رکھتے ۔ فضا تو آلودہ ہو رہی تھی زمین کا بھی ہم نے حشر کر دیا ۔ جہاں بیٹھے۔ کھڑے ہوئے۔ کھایاپیا ۔ کوڑا اُدھر ہی پھینک دیا ۔ ہر چیز کی ایک گنجائش ہوتی ہے۔ سڑکوں سے سمندر تک کوڑے کے ڈھیر لگا دئیے ۔ دنیا کے کم ہی خوش قسمت علاقے ہونگے جہاں آسمان کا نیلا رنگ اصل صورت میں نظر آتا تھا ۔ بات نعمتوں کے استعمال سے بڑھ کر سینہ ۔ منہ زوری ۔ قبضہ گیری تک جا پہنچی ۔ انسان ہی کے متعلق فرمایا گیا ہے۔ترجمعہ:۔ خبردار ؛ بے شک انسان ضرور سر کش ہو جاتا ہے (اَلعلقْ۔6)۔
زمین پر تو بات سرکشی سے آگے بڑھ رہی تھی "مالک کائنات" کی اپنی مخلوق سے محبت نے ابتدائے آفرنیش سے نسل اِنسانی کو بچائے رکھا پر کب تک ؟ ہم جو صرف ایک گھر یا ایک دو نوکروں کے مالک ہیں اپنے کاموں میں ذرا سی غفلت ۔ نافرمانی برداشت نہیں کرتے ۔ منٹ کے اندر نہ صرف نکال باہر کرتے ہیں بلکہ بے عزتی کے انبار لگانے میں لمحہ نہیں لگاتے جب کوئی کام ہماری خواہش کے خلاف ہو جائے ۔ یہاں تو معاملہ بہت وسیع و عریض کا ئنات اور نہ نظر آنے والی لامحدود وسعتوں پر محیط دنیا کا تھا ۔ترجمہ :۔ اور بے شک ہم ہی مالک ہیں آخرت کے اور دنیا کے بھی (اَلیّل ۔13)
گھر کی صفائی ضروری تھی جب نوکروں نے غفلت برتی تو "مالک حقیقی" کا نظام حرکت میں آیا ایک سیکنڈ نہ ٹکنے والی دنیا محصور ہوگئی ۔ چاہے کِسی کا گھر200" کنال تھا یا ایک مرلہ کا "۔ ہفتوں باہر نکلنے سے معذور رہے ۔ چاہے کوئی طیاروں کا مالک تھا یا سائیکل کا ۔ آج جب واک کے لیے نکلتے ہیں تو ہر گھر سے باتوں کی آوازیں آتی ہیں جو پہلے نہیں آتی تھیں ۔ لاک ڈاؤن کے ایک ہفتہ میں ہی آسمان اپنے اصل رنگ میں نظر آنا شروع ہو گیا ۔ زمین مرمت طلب تھی ہم نے توجہ نہیں کی۔ صفائی مانگتی تھی ہم نے قصداً اغماض برتا۔ صفائی کا ایک اصول ہے جب ایک کمرے کی مقصود ہو تو گھر کے باسی دوسرے کمرے میں چلے جاتے ہیں ۔ صحن کی ہو تو ۔ باہر چلے جاتے ہیں اب کی مرتبہ پوری دنیا آلودہ تھی ظاہر ہے انسانوں نے کہیں تو بیٹھنا تھا ۔ سو سب کو بند کر کے کام شروع ہوا ۔ جب سب ایک ہی وقت میں اکٹھے ہو ئے تو بے پناہ فوائد ۔ برکات نظر آئیں ۔ چیزوں کی قدر جانی تو وہاں اپنے حقیقی مہربان مالک کی طرف رجوع کرنے کی اہمیت اجاگر ہوئی ۔ نعمتوں کے چھن جانے کی تکلیف سے گزرے تو توبہ نے اپنی طرف راغب کیا۔ہر آفت میں تنبیہ ۔ خیر کے علاوہ نقصانات بھی ہوتے ہیں ۔ جانی نقصانات کے عروج میں دنیا خوفناک معاشی کساد بازاری کی خبریں سُن کر مزید دہل رہی ہے۔ کیا گند صرف زمین پر پھیلا کوڑا تھا ؟ کبھی سوچا انسان کی ذات کتنے بڑے کوڑے کا ڈھیر بن چکی ہے۔ کیا صفائی صرف زمین کی متقاضی تھی ؟ نہیں ہمارا اندر زیادہ صفائی مانگتا ہے ۔ ہم نے نہ صرف ناشکری کی بلکہ اپنی حد سے تجاوز کیا ۔ مزید براں دوسروں کی خوشحالی ۔ ترقی پر از خود کینہ ۔ بغض ۔ نفرت کے الاؤ کھڑے کر لیے ۔ تپش سے دوسرے کیا جلتے خود ہی جھلس گئے ۔انسان کی تخلیق کا بنیادی نکتہ معصومیت اپنے ہاتھوں ختم کی ۔ عصبیت کی لہروں نے قوموں کو لڑا دیا ۔ ہوس کی انتہانے سگے رشتوں میں دراڑیں ڈال دیں ۔ تمام آفاقی تعلیمات پس پشت ڈال دی تو مکمل محصوری کے نقصانات تو ہونے ہیں ۔ بیماری بھی دوائی لینے کے بعد رخصت ہوتی ہے۔ بیماری انتہا پر ہے۔ آئیے دوائی لینے کے چند اصول سیکھ لیں۔ محبت اور اطاعت۔ ساری دنیا دو آفاقی۔ سنہری اصولوں پر کھڑی ہے۔ محبت کریں ۔ اپنے مالک سے ۔ اُسکے عطا کردہ فضل کا شکر لازم کرلیں۔ اُسکے بندوں سے محبت کریں ۔ جو حرام ہے اُس کو قطعی طور پر حرام سمجھ کر معاملات طے کریں اور جو حلال ہے اُس کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا لیں ۔ سب سے زیادہ ضروری" سود" کو اپنی زندگیوں سے نکال دیں۔ جو لوگ مختلف تاویلات کرتے ہیں اُن کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم اگر روزے رکھتے ۔ نماز پڑھتے ہیں تو اسلئے کہ حکم ہے۔ تو سود نہ کھانے کا حکم بھی" رب ذی شان" کی طرف سے ہے بلکہ "جنگ "ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا۔ مان لیا کہ وہ طاقت کے باوجود کتنی لاچار ۔ بے بس ہوگئی۔ کیونکہ ہم صرف نوکر ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن