عنبرین فاطمہ
سماجی کارکن ’’بشری خالق‘‘ جو کہ ایک لمبے عرصے سے خواتین کے حقوق کیلئے کام کررہی ہیں ہر پلیٹ فارم پر ان کے لئے آواز اٹھاتی ہیں لیبر لاز پر گہری نظر رکھتی ہیں ہم نے’’یوم مئی‘‘ کے حوالے سے ان سے خصوصی گفتگو کی انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت اچھے لیبر قوانین ہیں لیکن ان قوانین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور ان سے لوگوں کو آگاہی دینے کیلئے اردو ترجمہ کرکے تشہیر کئے جانا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
پاکستان میں ٹریڈ یونینز میں عورتوں کی نمائندگی نہ ہونا پدرشاہی سوسائٹی کا ثبوت ہے پاکستان میں جو مزدور اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کررہے ہیں وہ اپنے ساتھ خواتین کو شامل نہیں کرتے ۔جب خواتین مردوں کے برابر ہر سطح پر نہ صرف کھڑی ہوتی ہیں بلکہ کام بھی کرتی ہیں تو پھر ان کو حقوق کی جنگ میں شامل نہ کیا جانا ایک لحاظ سے بہت بڑاامتیازی رویہ ہے، خواتین کا ٹریڈ یونینز میں ممبر شپ کافی کم اورایگیزیکیٹو پوزیشنز پر نہ ہونا تشویشناک ہے ۔پاکستان میں لیبر لاز کہتے ہیں کہ ہر جگہ یونین بن سکتی ہے چند ایک محکموں کو چھوڑ کر،اب زیادہ تر مینجمنٹ و ایڈمنسٹریشن کے رویے ایسے ہیں کہ وہ ایسی کسی سرگرمی کو پسند نہیں کرتے وہ انفرادی طو ر پر لوگوں سے مل لیتے ہیں لیکن اجتماعی سودا کاری کرنا پسند نہیں کرتے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جہاں لوگوں کو جمہوری انداز میں آرگنائز کرنے ،تعلیم دینے،اجتماعی بارگینگ کا حق چھین لیا جائیگا تو وہاں پر پھر ہجوم ہی نظر آئیگا ۔
ہماری ستر فیصد آبادی زراعت پر مشتمل ہے صرف کسان مرد ہی نہیں ،کسان عورتیں بھی ہیں جو اتنا ہی کام کرتی ہیںجتنا کسان مرد کرتے ہیں ،اب صورتحال یہ ہے کہ اگر کام صبح سات بجے شروع ہوتا ہے تو عورتیں آٹھ بجے آتی ہیں انہیں اپنے گھر کے کام نمٹانا ہوتے ہیںیوں وہ آٹھ بجے ڈیوٹی پر ہوتی ہیں، پھر دن ڈھلنے تک مردوں کے برابر کام کرتی رہتی ہیں لیکن اجرت میں کمی کا عالم یہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میںانہیں آدھے پیسے دئیے جاتے ہیں۔کاٹن پکنگ جس سے ہمارا زرمبادلہ جڑا ہوا ہے یہ کام نوے فیصد خواتین کرتی ہیں لیکن ان کو اجرت مردوں کے مقابلے میں نہایت کم ملتی ہے جو کہ کھلم کھلا ناانصافی ہے۔اسی طرح سے گھروں میں کام کرنے والی خواتین جنہیں ہوم بیسڈ ورکر کہا جاتا ہے یہ ہر طرح کا کام گھر پر کرتی ہیں اور انہیں جو اجرت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر سارا دن بھی کام کریں تو سو روپے کا کام بھی نہیں بنتا ۔بشری خالق نے مزید کہا کہ میں متعدد بار ایسی خواتین سے مل چکی ہوں ان کے کام کی صورتحال یہ ہے کہ گھریلو امور کیساتھ ساتھ تمام دن انکو دیے جانے والا کام کرتی ہیں صحت کے مسائل میں بھی گھری ہوئی ہیں بعض عورتیں تو کہتی ہیں کہ انہیں دیگر ذمہ داریاں بھی نبھانی ہوتی ہیں ساتھ میں صحت کے مسائل کی وجہ سے کبھی کبھی تو دن میں صرف تیس یا چالیس روپے کاکام کر پاتی ہیں۔ یہ خواتین چونکہ باہر نکل کر یعنی مارکیٹ میں جا کر کام کرنے کا تجربہ نہیں رکھتیںاس لئے انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ ان سے کروائے جانے والے کام کی کتنی اجرت بنتی ہے اور انہیں کتنی ڈیمانڈ کرنی چاہیے اور سرمایہ دار اسی چیز کا فائدہ اٹھاتا ہے کہ ان خواتین کو پتہ تو ہے نہیں کہ انہیں کتنے پیسے ڈیمانڈ کئے جانے چاہیں ۔فارمل سیکٹر کے رجسٹرڈ مزدوروں کو سہولیات حاصل ہیں لیکن ان فارمل مزدوروں کے حالات تو بہت برے ہیں ۔لیبر انسپکٹر فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور کے ہونے والے استحصال کا تو نوٹس لے سکتے ہیں لیکن گھر میں چار دیواری میں کس طرح کیا اور کتنا کام کروایا جا رہا ہے ایسی صورتحال کا لیبر انسپکٹر بالکل بھی نوٹس نہیں لے سکتا ۔لہذا لیبر منسٹر ی کو چاہیے کہ وہ رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ مزدوروں کو کام کے حوالے سے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔