دیہاڑی دار مظلوم و معصوم فرشتے

Apr 30, 2022

عیشتہ الراضیہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmai.lcom
معصوم چہرہ،گرداوڑھے،میلے کپڑوں میں زیب تن بچہ تقریبا گاڑیوں کے ہر ورکشاپ پر آپ دیکھتے ہوں گے۔عام زبان میں اسے ’’چھوٹے ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے جو اپنے آس پاس گھومتی رنگین دنیا سے بے خبر گاڑیوں سے پہیوںمیں ہوابھرنے یا ان کی مرمت کرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ گھروںمیں موجود نوکر کی صورت میں یہی بچہ مالک کے بچوں کی آیا بھی بن جاتا ہے۔یہی بچہ ہمیں اینٹوں کے بھٹوں پر تپتی  ریت پر ماں کے آنچل سے دورمزدوری کرتے بھی پایا جاتا ہے۔
’’بچپن‘‘ ذمہ داریوں سے انجان، کھیلتے کودتے اور تتلیاں پکڑنے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچپن عمر کا یاد گار ترین حصہ ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر اس کے ہاتھ سے قلم چھین کر اس کے نرم ہاتھوں کو محنت کش بنا دیا جائے،تو ان کی آنکھیں حسرتوں کی جا بن جاتی ہیں۔ 
پاکستان میں تیزی سے بڑھتی آبادی اور غربت میں اضافہ بچوں سے ان کا بچپن چھیننے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ایک غریب شخص کے اگر تین سے اوپر بچے ہیں تو ان کی تنہا کفالت کرنے سے قاصر ہے یہی وجہ ہے کہ سات سال تک کی عمر پہنچنے پر وہ اپنے بچے کو تعلیم سے ہٹوا کر مزدوری کرنے پر لگا دیتا ہے۔ پاکستان میں بچے گھریلو ملازمین کے علاوہ گاڑیوں کے ورکشاپ،اینٹوں کے بھٹوں اور ٹھیکداروں کے ساتھ گھروں کی تعمیر پر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ آئے دن  گھریلوملازمین بچوں پر مالک کی طرف سے  بہیمانہ تشدد جس میں استری سے جلانا، بال کاٹ دینا، ہاتھ یا پائوں کی ہڈی توڑ دینا شامل ہے کی خبریں گردش کرتی ہیں۔ 
پاکستان میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے کیا قوانین ہیں جاننے کے لیے نوائے وقت نے چائلڈ لیبر قوانین پر عبور رکھنے والی ایڈووکیٹ ربیعہ باجوہ جو کہ سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بھی رہ چکی ہیں سے خصوصی گفتگو کی ہے جو نذر قارئین ہے۔
’’ بہت سے جرائم چائلڈ لیبر سے جڑے ہیں،انسانی سمگلنگ، بچوں کی خرید و فروخت، بچوں کے ساتھ جنسی جرائم ان سب کی بڑی وجہ چائلڈ لیبر ہے۔اس کی روک تھام کے لیے پاکستان میں مختلف قوانین بنتے رہے ہیں۔  پاکستان INO انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ساتھ چائلڈ لیبر کے خلاف کنونشنزمیں سگنیٹری ہے،اس کے علاوہ اٹھارویں ترمیم کے بعد  چائلڈ لیبر سے متعلق وسیع قانون سازی  ہوئی اور بہت سے قوانین بنے۔
Punjab restriction on employement of child labour act 2016 
جس کے تحت 15 سال سے کم عمر بچے کو فیکٹری یا کہیں بھی نوکری نہیں دی جاسکتی اور  اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کی سزا چھ ماہ اور کم از کم سات دن کی ہے اس کے علاوہ جرمانہ بھی قانون میں دیا گیا ہے۔
 اس قانون کے تحت18  سے   15 سال تک کی عمر کے بچے سے معمولی نوعیت کی مشقت کاکام لیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک اور قانون ہے
Punjab Prohibition of child labour at brick kilns act 2016
اس کے تحت14 سال  سے کم عمر بچوں کو بھٹوں پر کام کرنے نہیں دیا جائے گا، تیسرا قانون’’پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019 کے تحت 15 سال سے کم عمر کسی بھی بچے کو گھروںمیں کام کرنے نہیں دیا جاسکتا۔یہاں تک کہ بچوں کی دیکھ بھال یا بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی بچہ نہیں رکھ سکتے۔ہمارے یہاں قوانین موجود ہیں البتہٰ اس پر عمل در آمد اس طرح نہیں ہو پا رہا جیسا ہونا چاہیے تھا۔مثلاََ سیالکوٹ کے اندرانٹرنیشنل فیکٹریز میں بھی بچوں کو کام پر لگایا جا رہا ہے ، لہذا جب تک ریاست ہنگامی سظح پر اقدامات نہیںاٹھاتی تب تک بچوں کے حقوق کا استحصال جاری رہے گا۔ 

مزیدخبریں