اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کسی بھی صحافی کو ہراساں نہ کرنے کے حکم میں توسیع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عید کے دنوں میں بھی کچھ ہوا تو عدالت کھلے گی۔ درخواست گزار وکیل فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ارشد شریف یہاں موجود ہیں، کورٹ کی مداخلت کے بعد ان کی واپسی ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ہر کسی کے لیے یہاں موجود ہے، آپ نے کاشف عباسی کا پروگرام دیکھا ہے؟ حقائق کی تصدیق کے بغیر کیا کچھ کہا گیا، عدالت رات کو کھلی کیوں؟۔ عوام پر عدالت کا اعتماد اٹھانے کی کوشش کی، عدالتیں رات کو تین بجے بھی کھلیں گی اگر معاملہ آئین یا کسی پسے ہوئے طبقے سے متعلق ہو، سپریم کورٹ نے کون سا آرڈر جاری کیا تھا جس سے کوئی متاثر ہوا۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ایک بیانیہ بنا دیا گیا کہ عدالتیں رات کو کھلیں، عدالتیں کھلیں گی اور کسی کو آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گی، آپ لوگوں کا عدالت پر اعتماد ختم کر رہے ہیں، درخواست گزار وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ جنہوں نے پروگرام کنڈکٹ کیا اس سے متعلق وہی بتا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت کے بارے میں بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس عدالت پہنچ گئے، آپ چاہتے ہیں کہ عدالت فوری نوعیت کی درخواستیں نہ سنے؟، یہ کورٹ توہین عدالت پر یقین نہیں رکھتی، 2019 کا نوٹیفکیشن ہے۔ چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود نجی ٹی وی کے رپورٹر سے استفسار کیا کہ آپ نے اپنے چینل کو پریس ریلیز دی تھی؟، مطیع اللہ جان کا کیس اس عدالت نے کس وقت سنا؟، آپ کے پٹیشنر نے دستخط نہیں کیے تھے اور عدالت نے پٹیشن سنی، عدالت نے ایک نہیں، عدالتی اوقات کار کے بعد بہت سی درخواستیں سنیں، کوئی ذمہ داری بھی ہوتی ہے، آپ کو تو خوش ہونا چاہئے کہ آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا رہی، اگر رات کو تین بجے کوئی ارشد شریف کو اٹھائے تو کیا عدالت کیس نہ سنے؟۔ کیا اس کی کوئی سیاسی وجوہات ہیں؟۔ آپ چاہتے ہیں کہ عدالت سے اعتماد اٹھ جائے، سپریم کورٹ نے واضح پیغام دیا ہے کہ آئین کے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں دی جائے گی، آپ کو معلوم ہے کہ درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کی گئی تھی، سب لگے ہوئے ہیں کہ عدالتیں کھل گئیں، آپ سمجھتے ہیں کہ عدالتیں نہیں، آپ کا چینل آئین کو بہتر سمجھتا ہے؟، جھوٹ کے اوپر ایک بیانیہ بنا دیا گیا ہے کہ عدالتیں کھل گئیں، آپ کے چینل نے مسنگ پرسنز یا بلوچ سٹوڈنٹس سے متعلق کتنے پروگرام کیے؟۔ چیف جسٹس نے افضل بٹ سے استفسار کیا کہ آپ میڈیا کے نمائندے کے طور پر یہاں موجود ہیں، بتائیں کہ کیا یہ رویہ درست ہے؟۔ جس پر افضل بٹ نے کہاکہ رپورٹرز تو درست خبر دیتے ہیں مگر اکثر آفس میں بیٹھے افراد کو حقائق کا علم نہیں ہوتا اور غلط تبصرہ کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سیاسی بیانیے کے لیے اداروں کو تباہ کر رہے ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا، سپریم کورٹ آئین کی تشریح کے لیے اعلی ترین فورم ہے، آپ کو نصیحت ہے کہ یہ کام نہ کریں کیونکہ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے، بنیادی حقوق کے لیے عدالت کھلے گی، ان بیانیوں سے کچھ نہیں ہو گا، سپریم کورٹ کے اعلی ججز کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں، صرف اس لیے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے؟، جہاں پر ہم سے غلطی ہوتی ہے ضرور بتائیں، آپ سب سے پوچھتا ہوں کہ اس رات ہوا کیا؟ کیا کسی عدالت نے کوئی آرڈر پاس کیا ہے؟، عدالت نے عدالتی اوقات کے بعد صحافیوں کی پٹیشنز بھی سنیں، ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ ہم کسی کے کہنے پر بیٹھے تھے، کیا کوئی ہم تک رسائی کر سکتا ہے؟، یہ ہمارا قانون میں ہے کہ چیف جسٹس ایک انتہائی فوری نوعیت کا کیس کسی بھی وقت سن سکتا ہے، اس سے متعلق 2019 میں نوٹیفکیشن کیا، اس حوالے سے پٹیشن مجھ تک ضرور پہنچے گی، اس پر میں نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس میں انتہائی فوری نوعیت کا معاملہ ہے یا نہیں، سیاسی بیانیے کو اداروں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کسی کے پریشر میں نہیں آتی اور نہ آئے گی۔ 1960 سے جن لوگوں سے زمینیں لی گئیں اور آج تک پیسے بھی نہ دیے، عدالت نے ان سے متعلق فیصلہ دیا، عدالتیں کھلنے سے تکلیف کس کو ہوئی؟۔ سپریم کورٹ نے واضح پیغام دیا کہ آئین کے خلاف کوئی کام نہیں ہو گا۔ چیف جسٹس نے ارشد شریف اور ان کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کا مسئلہ حل ہو گیا؟، جس پر وکیل نے کہا کہ کال آئی کہ بوئنگ 777 کی سٹوری پر کوئی ایکشن لیا جا رہا ہے، انہوں نے مجھے پٹیشن فائل کرنے کا کہا تھا جو میں نے دائر کی، ارشد شریف نے بتایا کہ رات ڈیڑھ بجے بھی گھر کے باہر سادہ کپڑوں میں لوگ موجود تھے، عید آ رہی ہے، ان دنوں میں وکیل سے رابطہ بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر عید کے دنوں میں بھی کچھ ہوا تو عدالت کھلے گی، ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایاکہ ہم نے کوئی ایکشن نہیں لیا، کوئی انکوائری نہیں کی، ہراساں کرنے کے الزام میں بھی کوئی صداقت نہیں، ہم نے اس سے متعلق تحریری وضاحت بھی جاری کر دی ہے۔ فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم نے گھر بھی جانا ہوتا ہے، وہی الزام لگائیں گے کہ گھر بھی پہنچ سکیں، الزام اتنا ہی لگانا ہے جو ہضم ہو جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 9 اپریل کی رات اس عدالت کی صرف لائٹس آن ہوئی تھیں ان سے کسی کو کیا مسئلہ ہے؟، شاید آئیسکو کو لائٹس آن ہونے سے کوئی مسئلہ ہوا ہو۔ وکیل نے کہا کہ خبریں چلیں کہ قیدیوں کی وین بھی آ گئی۔