مستند ہے میرا فرمایا ہوا


مستند ہے میرا فرمایا ہوا
سارے  عالم پر میں چھایا ہوا
  بات تو اسی شعر  کے حوالے سے شروع کرنا چاہتا تھا لیکن درمیان میں ایک اور بات ذہن میں  آ گئی تو پہلے وہ۔ ابھی  سنا کہ وزیر اعظم  جذبہ خدمت کا ذکر کرrہے تھے۔ اس لفظ سے  دھیان میں وہ  اچھا دور ّ گیا  جب شیخ  رشید فرزندِ راولپنڈی ہوا کرتے تھے۔ شہر میں جگہ جگہ ان کے نام کی تختیاں لگی ہو تی تھیں جن  پر ایک ہی بات لکھی ہو تی تھی،صبح خدمت شام خدمت۔  اس زمانے میں  رمضان المبارک میں  شیخ صاحبکی افطاریاں  پورا ماہ چلتی تھیں۔ اشتہار چھپتا تھا  تیس روزے تیس افطاریاں۔ یہ اصل میں شیخ صاحب  کا خاص طریقہ تھا  اپنے حلقے کے لوگوں سے رابطے میں رہنے کا اور بہت موثرطریقہ… پرویز مشرف  کے زمانے میں  شیخ صاحب پنڈی  کے سر سید بھی کہلائے۔  اس وقت   تعلیم کے لئے ان کی  گراں قدر خدمات واقعی اس قابل تھیں  کہ انہیں راولپنڈی کا سر سید کہا جائے۔  خاص طور پر  طالبات کے لئے متعدد کالجوں کے قیام پر ان کی خاص توجہ رہی۔  ان کا سب سے بڑا کارنامہ میری نظر میں  فاطمہ جناح  یونیورسٹی ہے  جس  عمارت میں  یہ یونیورسٹی اب قائم ہے  یہاں ایوان صدر تھا۔ ایوان صدراسلام آباد منتقل ہوأ  تو  اس  عمارت کو یونیورسٹی بنا نے کے لئے  شیخ صاحب کی محنت  کی داد نہ دینا  اچھے کامو موں کی حوصلہ شکنی کرنے کے مترادف ہے  مگر یہ باتیں ہیں تب کی جب آتش جواں تھا۔ شائد یہ ان دنوں کی ہی بات ہے، جب شیخ صاحب کے دونوں بھتیجے  بھی ایام طفولیت سے نکل کر جوانی کی دہلیز  پر قدم رکھ چکے تھے۔ گورڈن کالج میں اس وقت پرنسپل  ڈاکٹر صاحب دسمبر کے امتحانات میں اکثر کہا کرتے   دھیان  رکھنا  شفیق ( شیخ صاحب کا  بڑا بھتیجا) کالج کے اندر  آ چکا ہے، لڑکوں کو نقل لگوائے گا۔   یہ کام شفیق شغل میں  اور پرنسپل کو تنگ کرنے کے لئے کرتا تھا۔چھوٹا بھائی
راشد جو  آ ج کل ایم این اے ہے  میری کلاس میں تھا۔ بہت شرمیلا اور کم گو۔ میں  نے کہا  راشد تم نے سیاست میں نہیں آنا۔ مسکرا کر بولا! ٹھیک ہے سر جی۔ وقت گزر جاتا ہے باتیں یاد رہ جاتی ہیں۔ اب نہ  وہ میں ہوں نہ  توُ  ہے نہ  وہ  ماضی  ہے  فراز۔  اب تو شیخ صاحب  کا منہ  آگ اگلتا ہے۔ جلا دوں گا مار ڈالوں گا،  آ گ لگا دوں گا۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ   پہلے وہ کسی اور کی صحبت میں تھے اور اب  کسی اور کی صحبت  میں ہیں۔   صحبتِ صالح  ترُا  صالح  کند۔  صحبتِ طالح  ترُا  طالح  کند۔
اب آتے ہیں شعر کی جانب…آپ کہتے ہیں  کہ   میرے خلاف سازش ہوئی ہے۔ گل سے تیری دل لگی تھی ناگوار اور یہ سب کچھ ہوأ س لاگ میں۔ آپ کہتے ہیں کہ کسی دلیل کسی بحث کی ضرورت نہیںچونکہ میںکہ رہا ہوں کہ میرا پیوٹن سے ملنا انہیں اچھا نہیں لگا اور انہوں نے میرے  مخالفوں کو آگے لگا کر مجھ سے حکومت چھین لی۔  لوگ مجھ سے پیار کرتے ہیں   کیونکہ میں انہیں خود دار قوم بنانے آیا ہوں۔ یہ سب کچھ  میں کہ رہا ہوں  اس لئے مان لو    اب سوال یہ ہے کہ کیا لوگ  مان رہے ہیں   جی ہاں مان رہے ہیں۔ کیا  اس لئے مان رہے ہیں کہ  کافی سوچ سمجھ کر ان  کے  دماغ  نے یہ  فیصلہ  کیا ہے کہ  ان کا لیڈر ٹھیک کہ رہا ہے۔ یا اس لئے مان رہے ہیں کہ    چونکہ وہ کہ رہا ہے اس لئے مان  لو۔  کوئی پوچھنے کو تیار نہیں کہ جب آپ کہ رہے تھے  کہ تین چوہے میرے شکار کو نکلے ہیں  لیکن  میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے میری دعا سن لی   اور چور ڈاکو اسمبلی  میں میرے خلاف  تحریکِ عدم اعتماد لے  آئے۔  اسوقت خدا کا شکر ادا کرناوالے نے یہ کیوں نہ کہا کہ  یہ میرے خلاف اندرونی اور بیرونی سازش  ہے،  مجھے عالمی کرکٹر بنننے سے تو کوئی نہ روک سکا  مگر عالمی   لیڈر بننے سے روکا  جارہا ہے۔ جب آپ اتحادیوں  سے گھر گھر جاکر مل رہے تھے تو ان کو آپ نے کیوں نہ کہا کہ میرے  خلاف ہونے والی بیرونی سازش کا حصہ نہ بنو۔ اس وقت آپ چپ کیوں تھے۔  آپ کے ساتھی کہتے نہ تھکتے تھے  کہ ا ن کے  لیڈرکے پاس ٹرمپ کارڈ ہے جسے وہ ڈی چوک کے تاریخی جلسے میں شو کریں گے۔ افسوس انہوں نے ہمیشہ میدانِ سیاست کو  کرکٹ کا کھیل سمجھ رکھا  اور انکے  ساتھی امورِ سیاست کو  تاش کا کھیل سمجھنے لگے جس  میں  قمار بازی بھی ہوتی ہے۔  استاد  ذوق نے ایسے موقعوں کے لئے کیا خوب کہا:
کم ہونگے اس بساط پر  ہم جیسے بدقمار
جو چال  بھی چلے سو  نہائت بری چلے
ہاں  میں ہاں ملانے والے اندرونی و بیرونی پاکستانی یہ تو پوچھیں کہ جناب جب آپ نے اپنے جلسے کا نام  امر بالمعروف رکھا تھا تو  تو اسوقت آپ کا نشانہ  متحدہ اپوزیشن تھی آپ کے مخاطب آپ  کے  مخالفین تھے  یا امریکہ۔ ان جلسوں میں  آپ نے وہ خط کیوں نہ لہرایا۔ خط تو  آ چکا تھا۔ تو پھر  قاسم سوری نے تحریکِ عدم اعتماد باقائدہ  ووٹنگ کراکے کیوں منظور کی ۔ اس وقت ضمیر کیوں نہ جاگا۔   کیا آپ اتنے حساس معاملے کو ایک پولیٹیکل   سٹنٹ کے طور پر استعمال کر ناچاہتے تھے۔ تو پھر مبارک ہو  آپ کامیاب ہو گئے۔  باغ  سیاست پر ایک حزنیہ اداسی چھائی ہو ئی ہے۔
فقط تمہیں تو نہیں کشتۂ خزاں  زاہدؔ
چمن میں اب تو کسی پھول پر بہار نہیں
کوئی پوچھنے والا نہیں  کہ اگر آپ کو  بائیس کروڑ لوگوں کے دو کروڑ ووٹ مل سکتے ہیں تو  وہ  چور ڈاکو بھی تو انہیں پاکستانیوں کے لاکھوں ووٹ لے کر  منتخب ہو تے ہیں  تو جس طرح لوگ آپ کی اندھی تقلید کرتے ہیں  تو ایسی تقلید دوسرے بھی تو کروا سکتے ہیں۔  جس معا شرے کی جمہورئت  ہیرو پرستی پر قائم ہو،   جہاں سیاسی جماعتیں کسی  ہیرو کے گرد گھومتی ہوں کیونکہ ووٹ دینے والے  آزاد لوگ ہیرو پرست ہیں۔  وہاں آپ سے سوال کون کر سکتا ہے۔   جس معاشرے میں ہم ہیں  وہاں صرف جذبات سے کھیلا جاتا ہے۔  
اور ہماری نسل در نسل تربیت بھی اسی کی طرح کی ہے  کہ یہاں جذبات عقل پر حاوی رہتے ہیں۔ ہم ہیرو پرست کیوں ہیں  اس لئے کہ ہمار ے علم کا سرچشمہ  مقررین کی تقریریں ہیں  کتاب نہیں اور  کتاب سے ہمارا تعلق ٹوٹ چکا ہے۔

ای پیپر دی نیشن