سیاست میں لچر پن اور تہمت 


ہماری سیاست میں لچر پن، گالی گلو چ اور تہمت زنی کی ابتداء کب سے ہوئی اور سیاسی مخالفین کی ہجو اور پگڑیاں اچھالنے، دشنام طرازی اور برے ناموں سے پکارنے کا آغاز کب سے ہوا اس سے سیاست میں کیا تلخیاں پیدا ہوئیں اور ملک و قوم کی مجموعی اخلاقیات پر بتدریج کیا بد اثرات پڑے اور اب ان بد اثرات سے نکلنے کے لیئے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے یہ انتہائی ضروری کام ہے جس پر ہمارے سماجیات کے ماہرین کو بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے، تلاش و جستجو کے اس سفر میں تاریخ کے طالبعلم کو ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کا اتفاق ہوا تو یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ یہ تو ڈیڑھ دو صدیوں کی میراث ہے جو تسلسل سے انڈے بچے دے رہی ہے، اگر چہ اس کے پیچھے کار فرما عوامل کی ظاہری شکل و صورت بدلتی رہی ہے مگر اپنے جوہر کے لحاظ سے یہ ہر دور میں ایک سے ہی رہے ہیں اس کار بد میں ہر مفاد پرست فرد اور گروہ نے اپنی وقتی ضروریات کے مطابق عوام  کے ذہنوں کو مسموم کرنے کا جرم کیا اور جانے انجانے میں عوام کی ایسی تربیت کی جس کے نتیجے میں ہیجانی ذہنیت نے جنم لیا اور پھر معاشرے نے مفاد پرست طبقات کی بوئی ہوئی نفرتوں کی فصلیں بار ہا کاٹیں، اس عمل میں نہ جانے کتنے معصوم انسانوں کو جان و مال اور عزتوں کی قربانیاں دینی پڑیں۔کچھ ناموروں نے اپنے مخالفین کے لیے اس زبانی جنگ کا آغاز بہ انداز دشنام طرازی، تضحیک اور تحقیر کیا، بڑے بڑے نامور لوگ تھے جنھیں نشانہ بنایا گیا پھر آوارہ لونڈے اور شہدے باقاعدہ اس مہم کا حصہ بنتے گئے اور بنتے آ رہے ہیں، نہ علمائے دین محفوظ ہیں نہ سیاستدان اور نہ ہی صحافی، ہر اختلافی نقطہ نظر کے لیئے دلیل کی
 بجائے زبان درازی، تہمت اور دشنام طرازی ہے۔برصغیر پاک و ہند کی مسلم سیاست مذھب اور نسلی گرہوں کے زیر اثر رہی ہے نتیجتا'' ہر دور میں ان گرہوں کے قائدین کو ہی زیادہ تر ہجو، بہتان اور دشنام طرازی کا نشانہ بنایا گیا اور ہر گروہ نے پوری کوشش کی کہ اپنے مخالفین کے خلاف ایک ایسی فضا پیدا کر دی جائے کہ مخالفین کی معقول سے معقول بات کو بھی عوام سننے کی بجائے ان کی باتوں کو ہنسی ٹھٹھے میں اڑا دیں،، غیر ملکی سامراج نے بھی ان رویوں کو بڑھاوا دینے میں اپنی ضرورتوں اور مفادات کے مطابق نئی جدتیں پیدا کیں اس کے آثار پوری تحریک آزادی میں ہمیں جا بجا نظر آتے ہیں۔ تحریک آزادی کے ثمر آور ہونے کے بعد بھی یہ طرز سیاست کسی نہ کسی طور جاری رہا لیکن اس طرز عمل کو عروج فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف بھٹو، بھاشانی، شیخ مجیب الرحمان کی تحریک کے دوران ملا جبکہ خود فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں بھی مس فاطمہ جناح جیسی محسنہ قوم و ملت کو نہ بخشا گیا، ایوب خان کے اور انکے وزیر خوراک کے خلاف جو نعرے زبان زد عام کرائے گئے وہ اسی اخلاقی پستی کے عکاس تھے جو ایوب خان کی سیاسی حریف محترمہ فاطمہ کے خلاف متعارف کرائے گئے تھے، مشرقی پاکستان کے پریس اور لیڈروں کی تقاریر تک تو براہ راست رسائی نہیں تھی لیکن مغربی پاکستان کی کرشماتی اور نوجوان ابھرتی ہوئی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو اور انکی  پیپلز پارٹی نے اپنی سیاسی مہم کا آغاز بلکل اسی انداز میں کیا تھا جس انداز میں محترم عمران خان اور انکی قائم کردہ سیاسی پارٹی  تحریک انصاف نے کیا فرق صرف اتنا ہے کہ بھٹو صاحب اور انکی پارٹی کے پرجوش نوجوانوں کی ملامت اور استہزا اور ہجو گوئی کا نشانہ سید ابولااعلی مودودی رح، جماعت اسلامی، خان عبدل قیوم خان، ممتاز دولتانہ، نوابزادہ نصراللہ خان اور ایئر مارشل اصغر خان صاحبان تھے اور آج عمران خان صاحب اور انکے پرجوش نوجوان ٹائیگرز کا نشانہ مولانا فضل الرحمان انکی جے، یو۔آئی اور شریف برادران اور انکی نوں لیگ ہیں باقی الا ماشااللہ زبان و بیان تھوڑی بہت ترمیم و تنسیخ کے ساتھ وہی ہے ایک فرق جو بھٹو صاحب کی الیکشن مہم اور عمران خان صاحب کی مہم میں رہا ہے وہ بڑی دلچسپی کا پہلو رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ جے یوآئی کے اکابرین جماعت اسلامی کے خلاف بھٹو صاحب کی مہم کے معاون اور مدد گار تھے اور سید مودودی رح کے خلاف وہی ناقابل بیان زبان استعمال کرتے تھے جو بھٹو صاحب اور انکے جیالے کرتے تھے جبکہ مولانا فضل الرحمان اور انکی جماعت کے خلاف اب تک عمران خان صاحب کی حمائیت میں جماعت اسلامی غیر جانبدار نظر آ رہی ہے، پھر وہ وقت بھی آیا جب بھٹو صاحب اور انکی پارٹی کو 1977 کی تحریک میں انھی دشنام طرازیوں اور معاندانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑا جو خود بھٹو صاحب کی سیاسی مہم کا طرہ امتیاز تھے خبکہ انکی بیٹی بی بی بے نظر کو تو انکے مخالفین کی طرف سے انتہائی بدتمیزی اور عامیانہ انداز سے نشانہ بنایا گیا اس سے بھی بدتر طریقے سے جس سے ذولفقار علی بھٹو مرحوم نے بحیثیت ایوب خان کی الیکشن مہم کے انچارج کے مس فاطمہ جناح کو بنایا تھا یہی معاملہ محترمہ کلثوم نواز اور محترمہ مریم نواز شریف کو اقتدار سے محرومی کے بعد رابطہ عوام کی مہم کے دوران درپیش رہا، غور کیا جائے تو سیاست میں ایک دوسرے کی توہین کرنے والوں اور مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے والوں کے لیئے یہ عبرت کا مقام ہے۔کیا ہمارے ارباب سیاست اب بھی اپنے نامناسب رویوں پر نظر ثانی نہیں کریں گے؟ کیا مقافات عمل کی اتنی تاریخی مثالیں انکے لیئے باعث عبرت نہیں۔کیا اب وقت نہیں آگیا کہ میری قوم کے ارباب سیاست اور ارباب اختیار سیاست اور معاملات حکومت میں شائستہ رویوں اور معقولیت کو رواج دیں تاکہ نئی نسل ان المیوں سے محفوظ رہے جس کا شکار ہماری اور ہم سے پہلے والی نسلیں ہو چکی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن