پاکستان کی تاریخ اور آئین پاکستان کی تاریخ مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی اِس موڑ پر آپہنچی ہے کہ اِس ملک کے ریاستی ادارئے ایک دوسرئے کی حدود کا احترام فراموش کرکے اپنی اپنی ہانک رہے ہیں اورآئین پاکستان کے اصل اسٹیک ہولڈرز یعنی پاکستانی عوام ہر محاذ پر خواہ امن ومان کے مسائل ہوں، عدالتوں میں انصاف کا حصول ہو، گڈ گورنس میں حکومتوں کا کردار ہو ہر جگہ سے یہ عوام صرف اور صرف تکلیف اْٹھارہے ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستانی عدلیہ میں جو جوڈیشل ایکٹیوازم کے نام پر کھیل کھیلا جارہا ہے اِس سے پاکستانی عوام کی دْنیا بھر میں جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ پاکستان کے سابق آرمی چیفس کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں حصہ لینے کے اعترافات اِس بات کا مظہر ہیں کہ ملک میں آئین کی بالا دستی نہ ہے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ عوام پر ایسے حکمران قابض ہیں اور عوام سے خراج وصول کر رہے ہیں اتنی مہنگائی کی شرح پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہ تھی۔ سیاسی عدام استحکام کی وجہ سے معاشی استحکام نہ ہو پا رہا ہے اور موجودہ حکومت کا کام صرف سابقہ حکومت کا رونا ہی روتے رہنا ہے۔ ایسے تو پوری دْنیا میں اس وقت کساد بازاری کا طوفان ہے لیکن پاکستان میں افراط زر کی شرح ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ قانون کا ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے راقم یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ آئین پاکستان پر نہ ماضی میں عمل ہوا اور نہ ہی اِس وقت ہورہا ہے اِس لیے ملک میں افراتفری کا عالم ہے۔سپریم کورٹ میں ججز کے گروپ جس طرح بنے ہوئے ہیں اِس نے بھی ہمارے اداروں کے کھوکھلے پن کو عیاں کردیا ہے سول اور ملٹری بیورو کریسی کا کردار اور حالت زار اس بات کا غماز ہے کہ آئین پاکستان پر اسکی کی روح کے مطابق عمل نہ کیا جانا ہی اس ملک کے تمام مسائل کی جڑہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئین کی بالا دستی کے حوالے سے جو باتیں حال ہی میں کی ہیں وہ غور طلب ہیں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، پاکستان توڑنے کا زہریلا بیج جسٹس منیر نے بویا جو پروان چڑھا اور دسمبر 1971 میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا،ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ووٹ سے سزائے موت دی گئی، آرٹیکل 184 تین کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے،یہ شق مظلوموں کے تحفظ کے لیے رکھی گئی تھی،184/3کا بھرپور استعمال ہوا، کئی مرتبہ اچھی طرح اور کئی مرتبہ بہت بری طرح،ہر کیس میں چاہے فوجداری ہو یا دیوانی کم از کم ایک اپیل کا حق ہوتا ہے، آئین کی شق 184 تھری کے تحت فیصلے کے خلاف آئین و قانون میں اپیل کا حق نہیں، یہ شق استعمال کرتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے،میری رائے میں 184 تھری کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے،میرے دوستوں کی رائے ہے یہ اختیار صرف چیف جسٹس استعمال کرسکتا ہے، چیف جسٹس ماسٹر آف رولز ہیں شق بتا دیں، میں اصلاح کرلوں گا،تیسری رائے ہے 184تھری میں تمام ججز اور چیف جسٹس مشترکہ طور پر ہوں،اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ ہمیں 7 سبق دے چکی ہے اور کتنی بار سکھائے گی، آئین پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملے گا،ماضی سے سبق سیکھیں، غلط فیصلہ ایک کرے یا اکثریت، غلط ہی رہے گا،جس دن مجھ میں انا آگئی میں جج نہیں رہوں گا۔ بدھ کو آئین پاکستان، قومی وحدت کی علامت کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1973کا آئین صرف سپریم کورٹ کیلئے نہیں، اس میں سب کے حقوق ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت آئین کو اس طرح پیش نہیں کیا جارہا، آئین صرف سیاست دانوں چند افراد پارلیمان اور عدلیہ کیلئے نہیں بلکہ عوام کیلئے ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان بننا مشکل کام تھا وہ تو 1947میں ہوگیا مگر لوگوں کو آئین دینے والا کام بروقت نہیں ہوا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1956کی دستور ساز اسمبلی کے تحت الیکشن نہیں ہوا، 1958 میں ایک شخص نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر مارشل لا لگایا دیا، 1962میں اس شخص نے اپنا آئین بنالیا، 1965میں اسی آئین کے تحت الیکشن ہوئے۔انہوں نے کہا کہ پوری طاقت کے باوجود حالات اس شخص سے نہ سنبھلے تو پھر ایک اور ڈکٹیٹر کے حوالے کردیاجس کے بعد 1971میں ملک ٹوٹ گیا، ملک اچانک نہیں ٹوٹا تھا بلکہ اس کا بیچ بویا گیا، یہ زہریلا بیج جسٹس منیر نے بویا تھا۔انہوں نے کہاکہ آئین کو اس طرح پیش نہیں کیاجاتا جس کا وہ مستحق ہے، آئین کسی ایک پارٹی کیلئے نہیں یہ کتاب سب کی ہے، آئین میرے لیے صرف کتاب نہیں ہے، اس میں لوگوں کے حقوق ہیں، ہم آئین کی تشریح کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب کوئی ناانصافی ہوتی ہے تووہ زیادہ دیر تک ٹھہرتی نہیں، بویا بیج جب پروان چڑھا تو اس نے پوری قوم کے ٹکڑے کر دئیے، جو کام ہم آج کرنے بیٹھے ہیں، اس کے اثرات صدیوں بعد بھی نکلیں گے۔
قارئین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی ایک انسان ہیں اْن کی ذات سے سو اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن آئین کی بالاد ستی کے حوالے سے جو اْنھوں ایک پس منظر بتایا ہے ہم ماضی سے سبق سیکھ کراآ ئندہ کے لیے ملک کو بہتری کے راستے پر گامزن کر سکتے ہیں۔
٭…٭…٭