ایک وقت ایسا بھی تھا جب پاکستان میں کوئی فلم بہت کامیاب ہوتی اور ہر شو میں ہاؤس فل ہوتا تو ایسے رش کو کہا جاتا تھا کہ کھڑکی توڑ رش ہے
بعض اوقات تو ایسا ہوتا تھا کہ فلم کی ٹکٹیں لینے پر بھی لڑائیاں ہوتی تھیں اور بعض اوقات فلم دیکھ کر سینما سے باہر نکلنے والے ناظرین فلم کے ڈائیلاگ بولتے بولتے لڑتے رہتے تھے۔ ایسی کھڑکی توڑ فلموں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے۔ یہ پاکستان فلم انڈسٹری کا سنہرا دور تھا۔ فلم دیکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد سینما گھروں کا رخ کرتی تھی۔ لوگوں کے لیے سینما بہت بڑی تفریح ہوا کرتی تھی۔ پھر وقت بدلا اور بدلتا ہی چلا گیا ہمارے سینما گھر اجڑتے چلے گئے اور آج تو بہت سے سینما گھروں کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے۔ بدلتے وقت میں سیاست کا ہر چیز پر غلبہ ہوا اور آج پاکستان کی سیاست ہی ایک تفریح بن گئی ہے اور یہ تفریح شہریوں کو سکون سے زیادہ اذیت فراہم کرتی ہے۔ یوں سینما گھروں کے خاتمے کا بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ حقیقی تفریح اور فنون لطیفہ کو بہت نقصان پہنچا، سیاست ہر چیز پر غالب آئی اور پاکستان میں تہذیب، روایات، اخلاقیات، رواداری اور بھائی چارے سمیت ہر اچھی چیز کو کھا گئی۔ کھڑکی توڑ فلموں کا دور ختم ہوا ہے تو گیٹ توڑ سیاست کا دور شروع ہوا ہے۔ یہ دور سیاست دانوں نے شروع کیا ہے۔ پہلے فلم دیکھنے والے سینما گھروں کے باہر بڑی تعداد میں موجود ہوتے تھے اور اب سیاست دانوں کے گھروں کے باہر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسر و اہلکار ہوتے ہیں، میڈیا کے نمائندے ہوتے ہیں، سوشل میڈیا پر کام کرنے والوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے فلم تو تین گھنٹے میں ختم ہو جاتی تھی یہ سیاسی فلم گھنٹوں جاری رہتی ہے اور ہر روز ایسی فلم کہیں نہ کہیں ضرور دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسی ہی ایک گیٹ توڑ فلم چوہدری پرویز الٰہی کے گھر دیکھنے کو ملی جہاں پولیس کی بکتر بند گاڑی نے پرویز الٰہی کے گھر کا دروازہ توڑ ا اور گھر میں داخل ہو کر ستائیس افراد کو حراست میں لیا جبکہ گھر میں سرچ آپریشن تقریباً آٹھ گھنٹوں تک جاری رہا۔ اس دوران میڈیا لمحہ لمحہ آگاہ کرتا رہا، لوگ ہر گھنٹے بعد ہیڈ لائنز دیکھتے ویسے تو لائیو کوریج بھی رہی یوں یہ فلم کامیاب ہو یا ناکام بہرحال عوامی توجہ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب رہی ہے۔ سیاست دانوں کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ جہاں انہوں نے ہر دوسرے شعبے کو تباہ کیا ہے وہاں فلم انڈسٹری کو بھی کامیابی سے تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے اور اپنی فلموں کی کامیابی کے
لیے مقابلے کی فضا ہی ختم کر دی ہے۔ دیکھنے والوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہے انہیں چاہتے چاہتے ہوئے بس یہی سیاسی گیٹ توڑ فلمیں ہی دیکھنا پڑتی ہیں۔ سیاست دانوں نے اگر سب کچھ تباہ کیا ہے تو یہ صرف میں نہیں کہہ رہا گذشتہ روز ہی سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اعتراف کیا ہے کہ سیاست دانوں میں مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے گذشتہ چند برسوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ دیکھ لیں کہ کوئی جماعت حکومت سے باہر تو نہیں رہی باری باری سب حکومت میں آئے ہیں اور آج بھی مسائل جوں کے توں ہیں۔ اسی طرح سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی کہتے ہیں کہ ملک میں گورننس کا نظام بہت ناقص ہے۔ اس وقت جس مالی مسئلے میں پھنسے ہیں، مشکل سے نکلیں گے، پاکستان میں گورننس کا نظام ناقص اور فرسودہ ہو چکاہے، پاکستانی حکومت کو چھ ہزار ارب روپے سود میں دینا ہے، بیس سے پچیس ارب ڈالر قرضہ واپس کرنا ہے۔ ہم گورننس میں بھارت اور بنگلا دیش سے بھی پیچھے ہیں، آئی ایم ایف کے ایک اور پروگرام میں جانا ہو گا۔ حالیہ سال ایک ہزار ارب روپے کا بجٹ خسارہ ہو گا۔ تیس لاکھ میں سے صرف بائیس ہزاردکانیں ٹیکس دیتی ہیں، حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنا ہو گی، مہنگائی کا سدباب کرنے کیلئے فوری طور پر کچھ کرنا ہو گا۔
یہ ملک کے حالات ہیں لیکن سیاست دانوں کو گیٹ توڑ فلموں سے ہی فرصت نہیں ہے۔ کل تک عمران خان کی حکومت تھی اور یہی کام وہ کر رہے تھے آج وہ اپوزیشن میں ہیں اور ایسی فلمیں کوئی اور بنا رہا ہے ان حالات میں کہیں بھی ملک نظر نہیں آتا۔ بس سب اقتدار کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف ایک الیکشن فلم کے پیچھے لگی ہے اور اس فلم کے لیے وہ سب کچھ داو پر لگانے کے لیے تیار ہے۔ سیاسی فلموں کا سلسلہ جاری ہے اور ظہور الٰہی روڈ پر چوہدری پرویز الٰہی کے گھر بننے والی حالیہ گیٹ توڑ فلم پر چوہدری پرویز الٰہی کے گھر اینٹی کرپشن اور پنجاب پولیس کے چھاپے پر وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین نے اپنے ہاتھوں پر زخم والی تصاویر کے ساتھ قرآن پاک کی ایک آیت شیئر کی؟ پولیس والوں کو بتایا کہ گھر پر والد اور والدہ کے علاوہ کوئی بھی موجود نہیں ہے، اگر گھر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو مزاحمت کروں گا پولیس نے ہمارے گھر پر ریڈ کی اور گھر کا داخلی دروازہ توڑنے کی کوشش کی۔ یہ فلم تمام سیاستدانوں کے لیے ایک سبق ہے ویسے انہوں نے انیس سو پچاسی سے ابھی تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا، نہ اپنے طور طریقے بدلے ہیں، نہ انداز بدلے ہیں، نہ ملک چلانے کا طریقہ سیکھا ہے، نہ حکمرانی کا سلیقہ۔ چوہدری پرویز الٰہی نے بھی خاندان کو متحد رکھنے کے بجائے سیاسی فائدے اور سیاسی مستقبل کو ترجیح دی۔ انہوں نے وعدہ خلافی کی اور یہیں سے اصل خرابی شروع ہوتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے وہ وعدہ نبھانے اور اپنے الفاظ کا پہرہ دینے کی ہے۔ یہاں صرف محدود اور وقتی سیاسی فائدے کے لیے دہائیوں کی قربت اور دوستی کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ کاش کہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی ایک ہی رہتے اور ان کے بریک اپ کی شکل میں کوئی سیاسی فلم سامنے نہ آتی لیکن یہ پاکستان کی سیاست کا المیہ ہے۔ ایسی گیٹ توڑ فلموں کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا یاد رکھیں پائیدار ترقی کا سفر خواب ہی رہے گا۔