اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) ایشیائی ترقیاتی بنک (اے ڈی بی) نے کہا ہے کہ ملیر ایکسپریس وے منصوبے کو بنک کے وسائل کے ذریعے فنڈنگ کے لیے ترجیحی منصوبوں کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ منصوبے سے متاثرہ لوگوں کے گروپ ’انڈیجینس لیگل رائٹس الائنس‘ کو لکھے گئے خط میں ایشیائی ترقیاتی بنک نے کہا کہ یہ منصوبہ اے ڈی بی کے احتساب کے طریقہ کار کے تحت غور کے قابل نہیں۔ حفیظ بلوچ نے ٹوئٹر پر اے ڈی بی کے خط کی کاپی شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’ملیر کے مقامی لوگوں کے اعتراض پر ایشیائی ترقیاتی بنک نے ملیر ایکسپریس وے کو ماحولیاتی بنیادوں پر مسترد کر دیا۔ تاہم سندھ حکومت کے ترجمان اور وزیراعلیٰ کے قانون کے مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے ڈان کو بتایا کہ ملیر ایکسپریس وے ایک پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) منصوبہ ہے اور اس کی مالی اعانت اے ڈی بی نے نہیں کی۔ خیال رہے کہ انڈیجینس لیگل رائٹس الائنس نے متاثرہ لوگوں کی جانب سے ایشیائی ترقیاتی بینک کے پاس ایکسپریس وے کے منفی ماحولیاتی اثرات کے بارے میں شکایت درج کرائی تھی۔ خط میں بینک نے کہا کہ سپیشل پروجیکٹ فیسیلیٹرز کے دفتر کی ٹیم اے ڈی بی کی پروجیکٹ ٹیم کے ذریعے شکایت میں اٹھائے گئے مسائل کی باریکی سے نگرانی کر رہی ہے۔ اس میں کہا گیا کہ ملیر ایکسپریس وے صوبے میں پیپلز پارٹی کے پروگرامز میں اے ڈی بی کی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں میں سے ایک تھا، تاہم اس منصوبے کے لیے بنک کی فنڈنگ کے لیے آج تک کوئی وعدہ نہیں کیا گیا تھا۔ خط میں مزید کہا گیا کہ منصوبوں کا انتخاب حکومت کی ترجیحات کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے تاکہ اس خطے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی ترقی کو متحرک کرنے کے لیے وسیع امکانات پیدا کیے جا سکیں۔ خط میں کہا گیا کہ سندھ میں اے ڈی بی کے رابطوں کے پورٹ فولیو پر بات چیت کے لیے ایک میٹنگ مارچ 2023ء کے اوائل میں ہوئی تھی اور اس میں وسیع پیمانے پر بات چیت ہوئی تھی اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان پیش رفت کے ساتھ ’ملیر ایکسپریس وے منصوبے کو ایشیائی ترقیاتی بنک کے وسائل کے ذریعے فنڈنگ کے لیے ترجیحی فہرستوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ملیر کے دو رہائشیوں اور کسانوں محمد اسلم اور عظیم دہقان نے کے ذریعے اس منصوبے کے خلاف اپنی وکیل عبیرہ اشفاق کے ذریعے بنک کے سامنے شکایت درج کرائی تھی۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ صوبائی حکومت نے غلط ماحولیاتی اثرات کی غلط تشخیص کی ہے اور ملیر ایکسپریس وے سے بہت زیادہ ماحولیاتی اور معاشی نقصان ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے زرعی پیداوار میں کمی آئے گی اور کراچی کے مضافات میں ملیر ندی کے ساتھ ایک ضروری گرین بیلٹ کو بھی نقصان پہنچے گا جس نے شہر کو موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات خصوصاً ہیٹ ویوز اور سیلاب سے محفوظ رکھا۔ صوبائی حکومت نے کہا کہ 27 ارب روپے کا منصوبہ ایک نیا جنوبی راستہ فراہم کرے گا اور بندرگاہ، کورنگی انڈسٹریل ایریا، لانڈھی انڈسٹریل ایریا کے ہزاروں مسافروں اور بھاری کمرشل ٹریفک کو سہولت فراہم کرے گا اور سپر ہائی وے پر نجی ہائوسنگ سوسائٹی اور بحریہ ٹاؤن سے رابطہ قائم کرے گا۔