ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail
کچھ دنوں سے میڈیا پر دو خبریں گرم تھیں۔ایک کراچی چڑیا گھر میں نور جہاں (ہتھنی ) کی ہلاکت اور دوسری بڑی سپریم کورٹ اور الیکشن کی تھی۔ ہتھنی کے مر جانے سے ذو( zoo ) سے جڑیں نیوز تو ختم نہیں کم ضرور ہوئیں جبکہ دوسری خبر سپریم کورٹ، الیکشن اور مزاکرات ابھی تک گرم ضرور ہے مگر اب نرم دکھائی دے رہی ہیں۔ ڈر ہے کسی کی نئی ویڈیو نہ آجائے۔ سب کو چپ لگ گئی ہر کوئی اپنی سوچ میں گم ہے۔ اب ہم پہلے ہتھنی ایشو کی بابت کہانی بیان کرتے ہیں۔ ہتھنی بچاری کافی دنوں سے بیمار تھی، علاج کیلئے باہر ممالک سے ڈاکڑ بلائے گئے۔چڑیا گھر کے سپوک پرسن روز صبح شام ہتھنی کی صحت کے بارے میں بریفنگ دیتے رہے۔یہ اس کی خبر دینا کیوں ضروری سمجھتے تھے۔ شاید اس لئے کہ دعائوں سے یہ صحت یاب ہو جائے لیکن اس وقت شہریوںکی سمجھ سے باہر ہے کہ دعا کس کیلئے کریں۔سچ تو یہ ہے کہ اب بد نیتی کی وجہ سے دعائوں میں اثر نہیں رہا۔ اب دم کرنے والے بھی نہیں رہے جن کے پاس پیسے ہیں پیر اپنے گھر لے آئے ہیں مارکیٹ میں جو باقی بچے ہیں وہ بھی دو نمبر ہیں۔ہتھنی کی بریکنگ نیوز سنانے کا مقصد کا کچھ بتا نہیں۔ کہا جاتا ہے ان خبروں کامقصد سمجھ سے باہر ہے کہ ہتھنی کو نورجہاں کا نام کس نے دیا کس وجہ سے دیا۔جب کہ اس کی کوئی چیز نور جہاں سے ملتی جلتی نہیں تھی پھر بھی نور جہاں کے نام سے اسے پکارا جاتا رہا۔افسوس سد افسوس نام رکھنے والوں پہ اور ہتھنی کے مرنے پر۔ہتھنی ایشوکو کس نے اٹھایا ؟یا قدرت نے ان حضرات کو بے نقاب کرنا تھا جھنوں بڑے جانور (ہتھی) کو چڑیا گھر میں لانے پر کام کیا تھا۔ان سے پوچھا جائے کہ اس جانور کو دیکھنے کا شوق کتنے فیصد لوگوں کو تھا اس کو لانے میں کون لوگ ملوث تھے۔ چار سال قبل چار ہاتھی( دو میل اور دو فی میل) لائے گئے بعد میں وہ چاروں فی میل نکلیں۔ لانے والوں کو اس سے غرض نہیں تھی کہ کتنی میل تھی انہیں اپنے کمیشن سے غرض تھی۔بتایا جاتا ہے اس وقت یہ چار کروڑ میں لائے گئے تھے۔دو سال کے بعد دو ہتھنیوں کے دانٹ غائب ہو کس نے کیا،کچھ پتہ نہیں؟ ہاتھی میں سب سے قیمتی اس کے دانت ہی ہوتے ہیں۔لگتا یہی ہے جو یہ ہاتھی لے کر آ ئے تھے وہ اس نیت سے لائے تھے کہ اس سے چار پیسے بنیں گے وہ لوگ اس میں کامیاب دکھائی بھی دیئے۔یوں تو ملکی معاشی حالات دیکھ کر چڑیا گھروں کو ویسے بھی بند کردیا جائے تو اچھا ہے۔اس میں جانورں کے بجائے بے سہارا غریبوں کو اس جگہ میں رکھا جائے۔اسی اخراجات پر انہیں کھانا دیں ڈاکڑ دیں تو قدرت بھی خوش اور بندے بھی خوش ۔ لوگ یہاں سبق حاصل کرنے کو بچوں کو لایا کریں گے کہ دیکھو انسان انسان کے ساتھ کیا کرتا ہے؟ انہیں اپنے ہی اس حال میں چھوڑ جاتے ہیں اس جگہ کا نام چڑیا گھر کے بجائے ہوم لیس گھر رکھا جائے۔ امیر لوگ تو اولڈ ہائوس میں پیسے دیکر اپنے بزرگوں کو چھوڑ آتے ہیں کیا ایسا وقت غریب انسان پہ نہیں آتا ان کے لئے کیا کوئی انتظام کرنا ضروری نہیں۔ ویسے بھی پرندے جانور آزاد ہی اچھے لگتے ہیں۔انہیں قید میں رکھنا ویسے بھی گناہ ہے۔ ایسا کر نا نیکی کا کام بھی ہے چرند پرند کو ازاد کر کے دعائیں بھی ملیں گی۔ ویسے بھی چڑیا گھروں میں جانوروں کا کھانا وہاں ملازم کھا جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کام کرنے والے وہی کھا جاتے ہیں یا گھر لے جا تے ہیں۔ لہذا گزارش ہے کہ اگر یہ بات اچھی لگے تو اواز اٹھائیں۔اپنے ملک میں چڑیا گھروں کی جگہ بے سہارا لوگوں کو بسایا جائے جن کا کوئی نہیں ہوتا۔ جو بجٹ اخراجات جانوروں پر آتے ہیں وہی ان انسانوں پر لگا ئیں۔ عام آدمی کو تو سمجھ نہیں کہ اس یہاں ایشو کیا ہیں؟ مہنگائی ہے ،آئی ایم ایف ہے ، سپریم کورٹ ہے ، الیکشن کمیشن ہے یا پارلیمنٹ یا آئین کی گولڈن جوبلی منانا ہے ان ایشو کے علاوہ بھی بہت سے ایشیو ہیں جن پر لکھا جا سکتا ہے لکھا جانا بھی چاہئے۔ میرے نزدیک آج کا غریب انسان جانوروں سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہا ہے۔ہم سارے حقوق اللہ کا خیال کرتے ہیں مگر حقوق العباد کا نہیں۔ حقوق اللہ اگر ادا نہ بھی ہوں تو وہ ذات پھر بھی معاف کر دے گی مگر حقوق العباد ادا نہہوں تو معافی ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ ویسے بھی جو کام ہمارے کرنے کے نہیں اسی پہ ہمارا زور ہے۔جب کہ ضرورت یہ ہے مسلمان ہی نہیں انسان بن کربھی دوسرے انسانوں کی بھلائی اور انکی بہتری کا بھی سوچیں۔یہ وہی راستہ ہے جو جنت کی دودھ اور شہد کی نہروں کی طرف لے جاتا ہے۔ سپریم کورٹ اور لوئر عدالتوں کے جج صاحبان لاوارث شہریوں کے کیسوں کا فیصلہ انصاف پر مبنی اور جلد کرائیں گے تو دودھ اور شہد کی نہریں بھی انکا مقدر بنیں گی۔
چڑیا گھروں کو ختم کردینا چاہیے؟
Apr 30, 2023