سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے کوئی اختلاف کرے، انہیں ناپسند کرے یا ان کی باتوں کو مخالفت کا نام دے، ہر سننے والے کا اپنا نظریہ ہے وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ شاہد خاقان عباسی ہر اس مسئلے کی نشاندہی کر رہے ہیں جو درحقیقت پاکستان کا مسئلہ ہے، ہر اس راستے کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں جو ہمیں بہتری کی طرف لے کر جا سکتا ہے، ہر اس مسئلے کو پاکستان کے کروڑوں لوگوں اور بالخصوص صاحب اقتدار کے سامنے رکھ رہے ہیں جس کے ہاتھ میں فیصلے کی طاقت ہے و قوت ہے۔ قارئین کرام ہمارے حکمرانوں کے نزدیک اپنے دوستوں، کاروباری شراکت داروں اور مختلف اداروں میں موجود بااثر شخصیات کے ساتھ تعلقات زیادہ اہم معلوم ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں طبقہ پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے بہتر مستقبل کے بجائے ان چند افراد کی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی تیار کرتا ہے، حکمت عملی بناتا ہے۔ چند اہم لوگوں کو خوش کرنے کے بعد حکمران طبقے کو یہ فکر نہیں رہتی کہ کروڑوں لوگ بھوکے مریں، بے روزگار ہوں، سڑکوں پر سوئیں، ادویات کے لیے مارے مارے ہھریں، دھکے کھائیں، ذلیل و رسوا ہوں یا کچھ بھی کریں۔ یہ کروڑوں لوگ حکمرانوں کے لیے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اگر ان کروڑوں ووٹرز کی کوئی اہمیت ہوتی تو آج حالات یہ نہ ہوتے، ہم بھوکے مر جاتے لیکن قرض نہ لیتے، دیکھیں ٹیکس کسی بیروزگار نے تو نہیں دینا، کسی کم آمدنی والے کے ٹیکس سے تو ملک نہیں چلانا جو جتنا کماتا ہے اس نے اتنا ہی ٹیکس دینا ہے، یہ سوچیں کہ زیادہ کمانے والا کون ہے، یا زیادہ قرض لے کر اسے معاف کروانے والا کون ہے، یہ ہرگز کوئی عام آدمی نہیں ہوتے، یہ وہی ہوتے ہیں جو حکمرانوں کے لاڈلے اور قریبی ہوتے ہیں، اگر مالی بدانتظامی ہے تو کسی عام شہری یا بے روزگار کی وجہ سے تو نہیں ہے یہ کام بھی حکمران طبقے نے انجام دیا ہوتا ہے پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چند افراد کی لوٹ مار، بیحسی، بدانتظامی اور نالائقی کی سزا ساری قوم کو دی جائے، کیوں نہ ان کے اثاثے ضبط کیے جائے اور ملک چلایا جائے، ہم کیوں آئی ایم ایف سے قرض لیں، قوم کیوں کسی کی بدانتظامی، نالائقی، نااہلی و بددیانتی کا بوجھ اٹھائے، کیوں اٹھائے۔ کیوں مالداروں سے ٹیکس نہیں لیا جاتا، کیوں ان کے اثاثے ضبط کرنے کے بجائے قرض معاف کیا جاتا ہے، کیوں انہیں ٹیکس میں چھوٹ دی جاتی ہے۔ یہ تماشا کب تک چلے گا اور کب تک کروڑوں لوگ اس تماشے کو برداشت کریں گے اور اس آگ میں جلتے رہیں گے جو نہ انہوں نے لگائی نہ اس کا بندوبست کیا، کیا یہ ظلم نہیں ہے، اس ظلم کے بعد بھی کوئی حکمران یہ کہے کہ اسے قوم کا بہت درد ہے تو وہ بہت بڑا جھوٹ بول رہا ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ "آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مطلب ہے کہ ہم یہ اعتراف کر رہے کہ ہم ناکام ہوچکے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کرنے سے گروتھ رکتی اور مہنگائی بڑھتی ہے۔"
حکمرانوں کو اس بیان کا فوری جواب دینا چاہیے اور حقائق قوم کے سامنے رکھنے چاہییں کیونکہ لگ بھگ پچیس کروڑ انسانوں کی اکثریت روزانہ گھنٹوں حکمرانوں کو سنتی ہے سب اپنا اپنا بیانیہ لے کر سچ کو جھوٹ، جھوٹ کو سچ، درست کو غلط اور غلط کو درست کرنے بیٹھے ہوتے ہیں کیا کوئی اس کا جواب دے گا کہ کیا مہنگائی کم ہونی ہے یا بڑھنی ہے، نشوونما رک جائے گی یا بڑے گی؟؟؟
شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں "آئی ایم ایف آپ کو زندہ رکھتا ہے، ہم ہر اکنامک پیرامیٹرز پر زوال پذیر ہیں، آپ نے جو کچھ کرنا ہے قرضہ لیکرکرنا ہے، جب تک نظام عدل ٹھیک نہیں ہوگا کہیں سے سرمایہ کاری نہیں آئیگی۔ ہم آٹا بانٹنا شروع کردیتے ہیں جس میں چالیس فیصد چوری ہوتی ہے، آپ کی انڈسٹری کی گروتھ ہو ہی نہیں سکتی، اگر سیاسی معاملات کو درست نہیں کریں گے تو یہ معاملات درست نہیں ہوں گے، کسی خام خیالی میں نہ رہیں، تمام چیزیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔"
جواب ان باتوں کا آنا چاہیے اور دلیل کے ساتھ آنا چاہیے، سوال ان لوگوں سے ہونا چاہیے جو دہائیوں سے ملکی معیشت کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں، گذری تین چار حکومتوں سے پوچھا جائے ملک کے ساتھ یہ ظلم کس نے کیا، کون کون اس کا حصہ دار ہے، کون کون یہاں سے فائدے اٹھاتا رہا ہے اور ملکی بنیادوں کو کمزور کرتا رہا ہے، یہ کوئی عام باتیں نہیں نہ ہی کوئی عام شخص یہ باتیں کر رہا ہے۔ شاہد خاقان عباسی ناصرف اس ملک کے سابق وزیراعظم ہیں بلکہ کامیاب کاروباری شخصیت بھی ہیں، وہ ایک سینئر سیاست دان ہیں، اگر وہ ملکی معیشت پر بات کر رہے ہیں تو اس وقت معیشت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ میڈیا کو یہی سوالات حکمرانوں اور متعلقہ اداروں کے سامنے رکھنے چاہییں۔
شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ "ہم سب چیزوں سے بے نیاز ہو کر دعوے کرتے ہیں، ان دعوؤں میں کوئی حقیقت نہیں، ہم نالائق ہیں اپنے معاملات خود حل نہیں کر سکتے۔ آئی ایم ایف ہمارے لیے آئی سی یو ہے،24 ویں بار آئی سی یو جارہے ہیں، اس سے مرض ٹھیک نہیں ہوگا، ایک ڈالر کی امداد دکھائیں جس سے کوئی چیز بنائی ہو جو ایکسپورٹ کی ہو، بیرونی سے بڑا مسئلہ اندرونی قرض بن گیا ہے۔"
شاہد خاقان عباسی نے پاکستان کے نظام حکومت کو ان چند الفاظ میں بینقاب کیا ہے اور حقیقت لوگوں کے سامنے رکھ دی ہے۔ کالم کے شروع میں ہی لکھا ہے کہ چند افراد نے ملکی وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہم صرف نالائق ہی نہیں بیحس بھی ہیں، متعصب بھی ہیں، بددیانت بھی ہیں، خائن بھی ہیں، ظالم بھی ہیں، جھوٹے اور مکار بھی ہیں، موقع پرست اور مفاد پرست بھی ہیں یہ ساری خصلتیں حکمرانوں سے ہوتی ہوئی ان کے قریبی لوگوں تک پہنچتی ہیں اور ہھر ان کے قریبی لوگوں سے منتقل ہوتے ہوئے نچلی سطح تک منتقل ہو چکی ہیں۔ چونکہ یہ خرابی ٹاپ لیول سے آئی ہے اس لیے علاج بھی وہیں سے شروع ہونا چاہیے۔جو حکمران ملک کو خود مختار نہیں بنا سکتا اسے حکمرانی کا حق ہونا چاہیے، میرے خیال میں نہیں آپ کی رائے کا منتظر رہوں گا۔
ایک اہم خبر بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں خبر کچھ یوں ہے کہ اس وقت ہر پاکستانی 2 لاکھ 88 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ملک کی سابق وزیر مملکت عائشہ غوث بخش پاشا کا بیان ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کو آئندہ تین سال میں ساٹھ بلین ڈالر ادا کرنے ہیں۔
سابق گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر کے مطابق 2007 سے ہمارا قرضہ بڑھتا گیا، بجٹ خسارے کی تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتیں ذمہ دار ہیں، خسارے کو کم کرنا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں۔
سابق گورنر اسٹیٹ بینک شاہد حفیظ کاردار نے کہا کہ ہم آج جس اسٹیج پر پہنچے ہیں اس کے ہم خود ذمہ دار ہیں، پیسے اکٹھیکرنے سے زیادہ ہمارے اخراجات زیادہ ہیں، ہمارے اندرونی اور بیرونی قرضے حکومتی آمدن سے 6 سو 70 فیصد زیادہ ہیں۔
اب 2007 سے آج تک حکومت کرنے والوں سے پوچھیں کہ ملک کے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا، جمہوریت کے نام پر ہونے والے اس ظلم کا حساب کون دے، جمہوریت تو لولی لنگڑی چل رہی ہے لیکن ملک نہیں چل رہا۔
آخر میں راحت اندوری کا کلام
اب اپنی رْوح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
میں چاہتا تھا چراغوں کو ماہتاب کروں
بْتوں سے مجھکو اجازت اگر کبھی مل جائے
تو شہر بھر کے خداؤں کو بے نقاب کروں
میں کروٹوں کے نئے زاویے لکھوں شب بھر
یہ عشق ہے تو کہاں زندگی عذاب کروں
ہے میرے چاروں طرف بِھیڑ گونگے بہروں کی
کسے خطیب بناؤں، کسے خطاب کروں
اس آدمی کو بس اک دْھن سوار رہتی ہے
بہت حسِیں ہے یہ دْنیا، اِسے خراب کروں
یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی ہے
کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں