صدیوں کی کمائی، نوے کی دہائی!!

Apr 30, 2024

ڈاکٹر عارفہ صبح خان

ڈاکٹرعارفہ صبح خان                                                                     
تجا ہلِ عا رفانہ                                      
بیسویں اور اکیسویں صدی کے بیچ میں ایک ایسی نسل نے جنم لیا ہے جو ہمیشہ تا یخ میں زندہ رہے گی۔ یہ لوگ 80, 70, 60  کی دہائیوں میںپیدا ہونے والے لوگ ہیں جنھوں نے زندگی کا ایک حصہ بیسویں صدی کے ربع آخر میں بسر کیا اور اب اکیسویں صدی کے ربع اول میں اپنی باقی تمام توانائیوں کو عہدِ جدید میں گزار رہے ہیں۔ اردو کے عناصر خمسہ سر سید، ڈپٹی نذیر احمد، شبلی نغمانی، مولانا آزاد ، مولانا حالی اور پھر اُنکے ساتھ اُس عہد کے ان گنت عظیم ہستیاں جو اسی طرح اٹھارہویں انیسویں صدی کے سنگم پر پروان چڑھیں۔ بر صغیر میں انکی تعداد لگ بھگ 100ہو گی اور اگر میں یہ کہوں کہ بیسویں صدی کے بیچ میں تقریباً دس ہزار ایسی شخصیات نے جنم لیا جنھوں نے دنیا بدل ڈالی ۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کے یہ لوگ پرانے اور نئے نظریات کا امتزاج ہیں جنھوں نے ساری دنیا ایک ایسی جامع ، ارفعٰ، مثالی، متوالی،با معنی، کارآمد اور تہذیب و ثقافت ، حقیقت اور رومانس، ایثار محنت عظمت محبت انانیت سے بھرپور زندگی گزار رہی ہے۔ میرا تعلق اُس نسل سے ہے جس میں رواداری اور مروت تھی، تھوڑی سی بغاوت اور خودسری تھی۔ خوابوں کے سلسلے حقیقتوں کے کوہِ قاف سے جا ملتے تھے۔ میرے دل کی بات پو چھیں تو بیسویں صدی کے ربع آخر اور اکیسویں صدی کے ربع اول پر اپنی جوانیوں کو الوداع کہنے والی یہ نسل بہت ذرخیز اور تا بدار ہے۔ ایسی نسل دنیا میں پہلے نہ پیدا ہوئی اور مستقبل میں پیدا ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ آرٹ اور سائنس کے ملاپ سے جنم لینے والی حسین ترین نسل ہے جس میں قربانی اور محنت کا جذبہ بھی تھا۔۔۔ترقی اور کامیابی کے ساتھ رومانیت اور افسانویت بھی تھی۔ یہ نسل تاریخ سے بھی جڑی تھی۔ اسے ماضی سے بھی دلچسپی تھی اور مستقبل کے سہانے مناظر بھی لُبھاتے تھے۔ یہ نسل اپنے حال میں بھی مست تھی۔ یہ نسل اختراع پسند بھی تھی اور اپنے ورثہ کی بھی امین تھی۔ نوے کی دہائی میں یہ نسل اپنے بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ابتدائی مراحل میں تھی ۔ جب رومانوی گانے، رومانوی مناظر اور رومانوی خطوط روح کے اند ر تک اُتر جاتے تھے۔ ایک دلنشیں مسکراہٹ، ایک نگاہِ کرم اور ایک لطیف فقرہ محبتوں کی فصل تیار کر دیتا تھا۔ محبت عہدے دولت گاڑی بنگلے امارت اور حسبِ نسب کی محتاج نہیں تھی۔ محبت کے اظہار کے لیے رات رات بھر موبائل پر بیہودہ گوئی کی ضرورت نہیں تھی۔ فزکس، میتھ اور کیمسٹری کے مضامین میں فیل ہو نے والے بھی کمال کیlove کیمسٹری رکھتے تھے۔ محبت میں اُنکی میتھمیٹکس بہترین تھی۔ وہ عشق کی فزکس جانتے تھے اور محبت کی سا ئیکالوجی انکے اند ر سرایت کیے رہتی تھی۔ یہ وہ نسل ہے جس نے انتہائی محنت سے پڑھا۔ موٹی موٹی کتابیں عرق ریزی سے ختم کیں۔ یہ نسل پوری ایمانداری سے کتابوں کی ورق گردانی کرتی تھی۔ انکا علم سمندر کی طرح گہرا، آسمانوں کی طرح بلند اور سورج کی کرنوں کی طرح روشن تھا کیونکہ یہ علم میں جعلسازیاں نہیں کرتے تھے۔ انکی ڈگریوں میں دو نمبریاں نہیں تھیں۔ یہ اپنے استا دوں کو عظیم رہنما، معتبر حوالہ اور معزز شخصیات سمجھتے تھے۔ اس نسل نے استاد کو آئیڈیل کا درجہ دیا اور استاد سے مکالمہ شروع کیا۔ اس سے پہلے غیر ضروری ادب اور خوف کی فضاتھی جبکہ آج استاد کی تحقیر اور توہین کی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تمسخر بھی اڑا یا جاتا ہے۔ اس عہد میں حسن و جمال کا حسین استعارہ لیڈی ڈیا نا تھی۔ اس عہد میں بے نظیر بھٹو اپنے بچپن میں تھیں یعنی 60 ء کی دہائی میں وہ چھ سات برس کی تھیں۔ ذہانت، وقار، علمیت، وطنیت اور بہادری نے نظیر بھٹو پر ختم تھی۔ ہالی ووڈ کے افق کا ستارہ ٹام کروز ساری دنیا کی لڑکیوں کے دلوں میں دھڑکتا تھا۔ مائیکل جیکسن کے سب دیوانے تھے۔ شاہ رخ خان، سلمان خان، عا مر خان ، اجے دیوگن، اکشے کما ر کا جادو چلتاتھا۔ مادھوری ڈکشٹ، جو لی چا ولہ، منیشا کو ئرالہ، کرشمہ، کرینہ، کاجول اور قطرینہ نے سب کو پاگل بنا رکھا تھا۔ جان شیر خان، وسیم اکرم، شین وارن، سچن ٹنڈولکر، اظہر الدین، وقاریونس، برآئن لارا، رونالڈو، کرسٹینا ، کی شہرتیں سرحدوں کے پار سرگوشیاں کرتی تھیں۔ پاکستانی اداکارئیں ریما، صا حبہ، نیلی، بابراشریف، انجمن، رانی، شبنم اور زیبا کی فلمیں دیکھی جاتی تھیں۔ پاکستانی ڈرامے انتہائی دلچسپی اور سبق کے حامل تھے۔ ادب میں اتنی چا شنی، رغبت اور کشش تھی کی میری نسل کے لوگوں نے ہزاروں کتا بیں پڑھی ہیں۔ کتاب پڑھنا بہت عزت اور قا بلیت کا معیار تھا۔ اخبار پڑھنے والے کی بہت تکریم اور وقار تھا کیونکہ اخبار پڑھنے والے بڑے صاحب علم، صا حب کردار، صا حب ذی وقار ہو تے تھے۔ انھیں حالاتِ حا ضرہ پر عبور ہوتا تھا۔ ہمارے بچپن لڑکپن جوانی کی سب سے اہم تفریح اخبارات و رسائل تھے۔ فلمیں او ر گانے ہمارے مشا غل تھے۔ شطرنج، تاش، بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس، کرکٹ اور لڈو یہ کھیل سب کو مرغوب تھے۔ رومانوی گانے سننا سبکو محبوب تھا۔ پرانی غزلیں ٹیپ ریکارڈر پر بجتی رہتی تھیں اور ہمارے والدین بشمول ہمارے دیوانوں کی طرح لتا، آشا بھوسلے، کشور کمار، رفیع، مکیش، نصرت فتح علی خان، نورجہاں، ناہید اختر، منی بیگم کو سُنا کرتے تھے۔ ہم پرانے ڈیزانوں کے ساتھ نئے فیشن اپنانے والے لوگ تھے۔ چوڑی دار پاجامے سے پینٹ پاجامے تک کا سفر بھی طے کیا ہے ہم نے شارٹ شرٹ سے فراک، میکسی اور لانگ شرٹ سب آزمائی ہیں۔ ہم ٹی شرٹس اور جینز تک بھی آئے ہیں۔ ہماری جنریشن نے چادر عبائے سے لیکر دوپٹے ، سٹالر اور رومال کے مزے بھی لوٹے ہیں۔ شا دیاں اٹینڈ کرنا بھی ایک بہت رومانوی فضا پیدا کرتا تھا۔ شادیوں پر اکثر نئی محبتیں پروان چڑھتیں۔ اکثر لڑکے لڑکیوں کے رشتے بھی طے ہو جاتے تھے۔ عید بقر عید بڑے معنی رکھتی تھیں اور عید بقر عید پر ایک دوسرے کو عید کارڈ دینا ایک انتہائی پسندیدہ فعل اور ذمہ داری تھی۔ عیدیاں اکھٹی کرنا اور اچھے کھانے بنانا اسقدر مرغوب تھا کہ پورے سال کی تھکن اُتر جاتی تھی۔ خط لکھنا اور کتا بیں پڑھنا ہمارے عہد کی سب سے حسین یادہے۔ خط لکھ کر خط کا انتظار کرنا ایک عجب سحر اور لطف تھا اس عمل میں بہت لمبے لمبے اور دلچسپ خطوط لکھتی تھی جو اپنے دادا دادی، چچا تا یا، خالہ پھوپھی، کزنز اور سہیلیوں کو لکھا کرتی تھی۔ میں تقریباً نصف درجن سے زائد ممالک میں موجود اپنے چچائوں اور کزنز کو خط لکھا کرتی تھی۔ میر ا خط پڑھ کر گو نگا بھی بول اٹھتا تھا اور ناخواندہ بھی جواب لکھنے بیٹھ جاتا تھا۔ ہر طرف میرے خطوط کا انتظار کیا جاتا تھا۔ میر ے ایک بہت دور کے عزیز جو انڈیا میں شملہ کے بینک میں منیجر تھے۔ وہ میرے کزنز کے نام لکھے میرے خطوط پڑھتے تو انھیں مجھ سے ملنے کا اشتیاق ستا تا۔ میں اُس وقت آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی مگر خط اتنا میچور اور دلچسپ ہو تا کہ لگتا جیسے کسی بیس اکیس سال کی لڑکی نے لکھا ہے۔ وہ میرے خطوط سے اتنے متا ثر ہوئے کہ اپنی فیملی کے ساتھ میر ا رشتہ لینے پاکستان آ گئے۔ مقصد یہ ہے کہ خط لکھنا بڑا رومانوی کام تھا۔ جب ہم سکول کالج یونیورسٹی جاتے تھے تو ہمارے والدین آج کی طرح درجنوں سوٹ نہیں بناتے تھے۔ ہم عموماً چند جوڑے ہی پہنتے تھے۔ اکثر اپنے بہن بھائیوں اور کزنز سے بھی کپڑے ادھار لیکر پہن لیتے تھے اور ہمیشہ ـ’خوش لباس‘ کے ٹا ئیٹل سے نوازے جاتے تھے۔ نو ے کی دہائی کی نسل بہت ذہین، با مروت، با اخلاق، سمجھدار اور کمپرمائزنگ تھی۔ اکثر لڑکے لڑکیوں نے اپنی محبتیں دل کے قبرستانوں میں دفنائی ہیں کیونکہ والدین نے اگر کسی کزن سے نکاح پڑھوا دیا تو ہماری نسل نے نا پسندیدہ کزن کو بھی شریک حیات بنا لیا اور ایمانداری سے زندگی گزاری ہے خواہ دل میں حسرتوں نے منہ چڑایا ہے۔ نو کے کی دہائی کے لوگ بہترین اولاد، بہترین والدین، بہترین ہمسائے، دوست اور کو لیگز رہے ہیں۔ نوے کی دہائی والی نسل نہایت ذمہ دار اور چاق و چوبند رہی ہے۔ یہ واحد نسل ہے جس نے کبھی اپنی زندگی میں بوریت اور ڈیپریشن کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ یہ ایسی کمال کی نسل تھی جو نہ موبائل کی کریزی رہی نہ ریسٹورنٹس ہر دوسرے دن ڈنر کرتی تھی نہ نیٹ فلیکس استعمال کرتی تھی نہ کمپیوٹر پر چڑھی رہتی تھی نہ مہنگی مہنگی گا ڑیوں پر لانگ ڈرائیو کرتی تھی نہ تفریح کے لیے غیر ملکی دُوروں پر جاتی تھی۔ پھر بھی کو ئی بُور نہیں ہوتا تھا۔ اس نسل میں لحاظ شرم تھی۔ تہذیب و تمدن تھا۔ کچھ کرنے کی لگن تھی۔ وقت اور رشتوں کا احساس تھا۔ یہ نسل فطرتاًخوش مزاج اور کمپرومائزنگ تھی۔ نوے کی دہائی قدیم اور جدید کا سنگم تھی۔ صدیوں کی تا ریخ میں یہ دہائی ناقابلِ فراموش ہے جس نے زمین پر بے شمار ستارے اُتا رے اور دنیا نے اُن ستاروں سے عزت محبت اور روشنی کشید کی۔ نوے کی دہائی ایک خوبصورت وقت، اہم ترین شخصیات اور اُنکی اعلیٰ کارکردگی کا مجموعہ ہے۔ 

مزیدخبریں