ایرانی صدر کا ہنگامی دورہ ، پردے کے پیچھے کیا ہے؟

 گلوبل ویلج                

مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا پاکستان کا دورہ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ان کا پاکستان میں والہانہ استقبال کیا گیا۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ دورہ ایک مسڑی اور معمہ ہے کیونکہ جس موقع پر یہ اچانک سے دورہ شیڈول ہوا اس پر بہت سے سفارتی حلقے حیران بھی ہیں کیونکہ ایران آج کل اسرائیل کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے۔ ایران کی طرف سے اسرائیل پر حملہ کیا گیا،پہل اسرائیل کی طرف سے شام میں ایران کے سفارتخانے پر حملہ کرکے کی گئی تھی، ایران نے اس کا جواب دیا تو اس کے جواب میں اسرائیل کی طرف سے بھی ایران پر حملہ کیا گیا۔ ان حالات میں تمام کے تمام حکومتی عہدیدار جو کسی بھی وجہ سے دوسرے ملک گئے ہوتے وہ اپنے ملک واپس آ جاتے ہیں، اپنے دورے ادھورے چھوڑ کر۔لیکن یہ کیا ہوا کہ ایران کے صدر ایسے موقع پر جب اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ جاری ہے وہ پاکستان چلے آئے۔ اس حوالے سے میرے پاس کچھ معلومات ہیں جو آپ کے ساتھ میں شیئر کرتا ہوں۔کچھ معاملات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ اور تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناطے بہت سے معاملات کا میں نے گہرائی سے مطالعہ کیا ہوا ہے۔ اور پھر ابھی انہی دنوں کچھ سابق اور کچھ موجودہ سفارتکاروں سے میری گفتگو ہوئی ہے، ان میں پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکی سفارتکار بھی شامل ہیں۔ میں آپ کے سامنے اس دورے کی نوعیت اور ضرورت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا، امید ہے کہ میں اپنی بات آپ کو سمجھانے میں کامیاب رہوں گا۔تو اس حوالے سے ہمیں ماضی کی کئی دہائیاں پیچھے جانا ہوگا۔ 
یہ 1965ء کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پاک فوج کی طرف سے مجاہدین کے ساتھ مل کر ایک آپریشن جبرالٹر کیا گیا تھا۔ایوب خان کو پتا تھا کہ بھارت کی طرف سے کسی وقت بھی ردعمل آ سکتا ہے۔ اس کا سامنا کرنے کے لیے تیاریوں کی ضرورت تھی، جب جغرافیائی حالات کو دیکھا گیا تو یہ واضح ہوا کہ ایران کے بھارت کے ساتھ تعلقات پاکستان کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔ نہرو اور شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی میں ذاتی دوستی تھی۔ حالات پاکستان اور بھارت کے مابین خراب ہوتے دیکھ کر ایوب خان کی طرف سے پیش بندی کی کوشش کی گئی کہ اگر بھارت اور پاکستان کے مابین حالات جنگ کی طرف چلے جاتے ہیں تو ایران کو کس طرح سے بھارت کی حمایت سے باز رکھا جا سکتا ہے۔تو اس کے لیے ایوب خان نے اپنے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو اعتماد میں لیا اور انہیں شہنشاہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے روانہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے انتخاب کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی اہلیہ نصرت بھٹو کا تعلق ایران سے تھا۔ذوالفقار علی بھٹو ایران گئے ،شہنشاہ ایران کے سامنے مدعا رکھا تو شہنشاہ ایران نے کہا کہ ہم پاکستان کی مکمل مدد کے لیے تیار ہیں، اس کے لیے ہماری دو شرائط ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے فوراً کہا کہ جلدی بتایئے تو شہنشاہ ایران نے کہا کہ ایک تو جو پاکستان اور ایران کے درمیان ایریا ’’سیندک ‘‘(یہ وہ ایریاہے جو ایران اور پاکستان کے درمیان متنازعہ رہا ہے بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیونڈر لائن کو افغانستان نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا)تو یہاں پر کہا جاتا ہے کہ تانبے کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔ شہنشاہ ایران کی طرف سے کہا گیا کہ اس متنازعہ علاقے کا معاملہ طے کر لیا جائے یہ ایران کو پاکستان کی طرف سے دے دیا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ دوسری کیا شرط ہے تو شہنشاہ ایران نے کہا کہ ایران کی سرحد کے اندرپاکستان میں دوسو کلومیٹر تک پاکستان کھدائی کرکے تیل کے ذخائر سے استفادہ نہیں کرے گا۔ ایک تو تانبے کے وسیع ذخائر اور دوسرے ایران جغرافیائی لحاظ سے پاکستان سے تھوڑا سا اوپر کی طرف ہے۔اگر پاکستان یہاں سے کھدائی کرتا ہے تو سارے کا سارا پیٹرول اورتیل پاکستان کی طرف منتقل ہو سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے شہنشاہ ایران کا یہ پیغام ایوب خان تک پہنچایا تو ایوب خان نے کہا کہ ٹھیک ہے دونوں شرائط مان لی جاتی ہیں یہ 1965ء کا واقعہ ہے۔ 
ذوالفقار علی بھٹو وہاں سے یہ دو معاہدے کرکے پاکستان آ گئے اور پھر حالات جنگ کی طرف گئے تو ایران نے پاکستان کا معاہدے کے مطابق بھرپور ساتھ دیا۔آپ کو یاد ہوگا کہ تاریخ میں یہ بھی موجود ہے کہ پاکستان کے جہاز بھارت پر حملہ کرکے ایران میں اترتے تھے تاکہ بھارت ان کو نشانہ نہ بنا سکے۔ 1965ء میں یہ تیس سال کے لیے معاہدہ ہوا تھا۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ بہت سے معاملات کا میں چشم دید گواہ بھی ہوں۔ 1994-95ء میں آ جائیں ،بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی ،آصف علی زرداری سینئر وزیر تھے۔آصف علی زرداری کی مذہبی حوالے سے بھی ایران کے ساتھ عقیدت موجود ہے۔ بے نظیر بھٹو بھی رشتے کے لحاظ سے ایرانی بیک گرائونڈ رکھتی تھیں اور آپ یوں بھی کہہ سکتیں کہ وہ ایران کی ’’نواسی‘‘ تھیں۔ 1994ء میں ایران کے صدر ہاشمی رفسنجانی پاکستان آئے اوراس معاہدے کی مزید تیس سال کے لیے توسیع کر دی گئی۔ میراخیال ہے کہ مزیدآگے بات کرنے سے پہلے قارئین آپ کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ 2024ء میں تیس سال کے بعد ایران کے صدر پاکستان کس مقصد کے لیے آ سکتے تھے، بالکل اسی معاہدے کی توسیع کے لیے۔ انہوں نے ایسی عالمی صورت حال میں جب ایران مکمل طور پر اسرائیل کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے ،جنگ ہو رہی ہے۔آصف علی زرداری کا ذکر کیا جب وہ پہلی مرتبہ صدر بنے تھے اپنی صدارت کے آخری دنوں وہ ایران گئے تھے۔ پاکستان کے ساتھ ایران کا گیس پائپ لائن کے حوالے سے معاہدہ ہوا تھا اس معاہدے پر پاکستان کی طرف سے ایک روپیہ بھی ابھی تک خرچ نہیں کیا گیا جبکہ ایران کی طرف سے آٹھ ارب ڈالر اس پر خرچہ کیا جا چکا ہے۔
 ایران کی طرف سے یہ پائپ لائن بالکل مکمل ہے، پاکستان کی طرف سے امریکہ کے دبائو کی وجہ سے ادھوری پڑی ہوئی ہے۔ قانونی طور پر ایران اربوں ڈالر پاکستان پر جرمانہ کروا سکتا ہے لیکن ایران ایسا نہیں کر رہا اس کی وجہ یہی ہے کہ ایران کی طرف سے پاکستان کے ساتھ اس معاہدے کو توسیع در توسیع کی ضرورت ہوتی ہے جو ایران کی بقا کا معاہدہ اور معاملہ بن چکا ہے۔ اگر پاکستان اپنی طرف سے تیل کے کنوئیں کھودنا شروع کر دیتا تو سارے کا سارا پیٹرول پاکستان کی طرف منتقل ہو جائے گا جو ایران افورڈ نہیں کر سکتا۔ ایران پر چھیالیس سال سے امریکی پابندیاں ہیں، ایران اگر ابھی تک معاشی طور پر سروائیو کر رہا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ چین، بھارت اور کئی دیگر ممالک بھی پابندیوں کے باوجود ایران سے پٹرول درآمد کر رہے ہیں اور ایران ان کو یہ پٹرول برآمد کر رہا ہے۔پاکستان میں آج کل جو حکومت ہے ،جو سیٹ اپ ہے ،اس پر تھوڑا ساغور کریں تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ ایران اور پاکستان قربتوں کی کس سطح پر ہیں۔(پاکستان کے دو موجودہ آئینی عہدوں پر صدر اور چیئرمین سینیٹ )اور پاکستان کی داخلہ سیکیورٹی کے انچارج بھی اسی ایک ایران کے پسندیدہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہی وہ حالات ہیں جن کی موجودگی میں ایران کے لیے یہ ماحول اور حالات سازگار تھے کہ وہ 65ء کے ہونے والے معاہدے کی دوسری دفعہ توسیع کروانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ایران کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو بہت زیادہ عرصے تک پابندِ سلاسل نہیں رکھا جا سکتا ،اور وہ جس دن بَری ہو گئے یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی صلح کے امکان پیدا ہو گئے تو پاکستان شاید 65ء میں ہونے معاہدے کی مزید توسیع سے انکار کر دے گا،اسی لیے باوجود اس کے کہ ایران اس وقت زبردست حالتِ جنگ میں اور ایرانی صدر اس مشکل ترین حالات میں بھی پاکستان کا پانچ روزہ دورہ کرنے آ گئے تو یہ بات ایک تاریخ اورسیاست کے ادنیٰ سے طالب علم کے ذہن میں بھی کھٹکتی ہے؟
ایران کی طرف سے پاکستان کے لیے والہانہ پن کی آپ کو سمجھ آ گئی ہو گی ، دو ماہ قبل ایران اور پاکستان کے مابین اتنی زیادہ کشیدگی تھی لیکن وہ کشیدگی اچانک گرم جوشی میں ڈھل گئی۔ ایران سارا کچھ افورڈ کر سکتا ہے ،اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شکست بھی اس کے لیے اتنی بڑی سْبکی نہیں ہو گی، اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوگی۔ امریکہ کا مقابلہ ایران کر رہا ہے ،مزید بھی کر سکتا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ کسی صورت بھی وہ ڈیل ریل ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ای پیپر دی نیشن